مجاہد ملت
2012کا ماہ دسمبر اور 2013کا ماہ جنوری اہل پاکستان اور اہل ایمان کے لئے صدمات کے مہینے تھے۔ کہ 26دسمبر 2012کو پاکستان کے مدبر سیاست دان، جرأت استقامت اور عجز و انکساری کے پیکر پروفیسر عبد الغفور احمدؒ ہم سے جدا ہوئے اور 6جنوری 2013کو مجاہد ملت مجاہد کبیر قاضی حسین احمد ؒ اسلام آباد میں دل کے دورے کی وجہ سے داعی ٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔
قاضی صاحب مرحوم کی دنیا میں آمد بھی جنوری کے مہینے میں ہوئی۔ وہ 12جنوری 1938کو زیارت کاکاصاحب نوشہرہ میں ممتاز عالم دین قاضی عبد الرب ؒ کے گھر پیدا ہوئے۔ اگر چہ محترم قاضی حسین احمد صاحب کے لئے ولادت و وفات کے لحاظ سے یہ دونوں تاریخیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں لیکن پاکستانی تاریخ کے کئی اہم ایام کا بھی قاضی صاحب کی زندگی سے گہرا تعلق ہے، مثلا5فروری یوم یکجہتی کشمیر، 23مارچ یوم پاکستان، 21اپریل اور 9نومبر یوم اقبال، یکم مئی یوم مزدور، 28مئی یوم تکبیر، 14اگست یوم آزادی6ستمبر یوم دفاع 7ستمبر یوم ختم نبوت 8ستمبر یوم اردو11ستمبر یوم قائد اعظم، 16دسمبر سقوط مشرقی پاکستان، 15اگست افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کا دن۔
دینی ایام میں سے سال ہجری کا پہلا دن اور یوم شہادت فاروق اعظم 10محرم الحرام یوم شہادت حضرت امام حسین ؓ، ربیع الاول، رمضان المبارک، عیدین، ایام حج وغیرہ۔ ان تمام ایام سے ہی نہیں عالم اسلام کے مسائل کے حوالہ سے ہر اہم دن سے قاضی حسین احمد مرحوم کا گہرا تعلق ہے، 5فروری یوم یکجہتی کشمیر قاضی حسین احمد ؒکا وہ صدقہ جاریہ ہے کہ جس کی حقیقی قدر و منزلت سے سید علی گیلانی مرحوم سمیت مقبوضہ کشمیر کا ہر پیرو جواں آگاہ ہی نہیں سرشار ہے۔
یہ وہ دن ہے جب پاکستان مقبوضہ و آزاد کشمیر کے ہر شہر ہر قریہ میں ہزاروں مردو زن سڑکوں پر آکر اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں جب پوری پاکستان قوم اپنے سیاسی و گروہی مسلکی و لسانی اور علاقائی اختلافات بھلاکر "کشمیر بنے گا پاکستان"کے نعرے بلند کرتی ہے، جب سرحد پار مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام تک ان کی محبتوں کی سرزمین پاکستان سے ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے پہنچتے ہیں۔ قاضی صاحب دنیا بھر کے مظلوموں کے پشتی بان تھے۔ وہ بوسنیا چیچنیا، فلسطین، کشمیر، روہنگیا، افغانستان سمیت ہر مظلوم کے ساتھی تھے۔ وہ امت کو جسد واحد سمجھتے اور درد مشترک، قدر مشترک کی بنیادوں پر اتحاد امت کے داعی تھے۔ قاضی صاحب کی زندگی کا پل پل گواہ ہے کہ وہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
قاضی صاحب ؒ نے اندرون ملک کاروان دعوت و محبت کے ذریعے محبتوں کے پیغام کو عام کیا۔ اسی طرح عالم اسلام کے ہر مسئلہ پروہ خود بھی تڑپتے اور انہوں نے اوروں کو بھی تڑپایا۔ ان کی ساری زندگی تگ و دو کی زندگی تھی۔ افغانستان کے ساتھ ان کی وابستگی روسی افواج کے حملے سے بھی پہلے سے تھی۔ کابل یونیورسٹی سے ابھرتی ہوئی تحریک اسلامی سے ان دنوں ان کا رابطہ تھاکہ جب ظاہر شاہ اور دائود کی حکومت نے طلبہ پر جبر کے پہرے بٹھا رکھے تھے، پھر جب روسی جارحیت کے بعد افغان مہاجرین کے قافلے پاکستان پہنچے تو قاضی صاحب نے ان لٹے پٹے مہاجرین کی میزبانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قاضی حسین احمد ؒ پاکستان کی جغرافیائی کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کو بھی اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے تھے۔
علامہ اقبال ؒ کے کلام کے وہ حافظ بھی تھے اور شارح بھی۔ ان کی تقاریر ہمیشہ آیات قرآنی سے مزین اور کلام اقبال سے منور ہوتیں۔ انہیں علامہ اقبال ؒ کا اردو کے علاوہ فارسی کلام بھی یاد تھااور وہ موقع و محل کے مطابق ان کا برجستہ استعمال بڑی خوبی کے ساتھ کرتے۔ قاضی صاحب کلام اقبال کے حوالہ سے اقامت دین کی تشریح کرتے کہ نبی کریم ﷺ نے غار حرا سے اتر کر دنیا کیلئے اسلامی نظام کا پیغام دیا۔
درشبستان حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
از کلید دین در دنیا کشاد
ہمچو او بطن ام گیتی نزاد
قاضی صاحب کبھی شکوہ اور جواب شکوہ کے حوالے دیتے۔ کبھی علامہ اقبال کے دربار نبی ﷺ میں تخیلاتی حاضری پر مبنی اشعار پڑھتے، کبھی
آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہاہے کسی اور زمانے کے خواب
غرضیکہ قاضی حسین صاحب۔ امت مسلمہ کے ماضی کے ترجمان تھے، حال پر نوحہ کناں تھے اور روشن مستقبل کے نغمہ خواں تھے۔ اللہ کریم ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے صدقات جاریہ جماعت اسلامی، الخدمت فائونڈیشن، تحریک آزادیٔ کشمیر، اتحاد امت۔ قرطبہ اور بے شمار پراجیکٹس اور آصف لقمان قاضی، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، انس قاضی، خولہ قاضی کی صورت میں اولاد صالح کے نیک اعمال کو قبول فرمائے۔