وہ اپنا چہرہ میرے آنسوئوں میں چھوڑ گیا!
خالد احمد کا ایک شعر ہے؎
کوئی تو روئے لپٹ کر جواں لاشوں سے
اِس لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
اور قمرزمان کائرہ کے بیٹے کی ماں اپنے جوان بیٹے کی لاش سے لپٹ کر خوب روئی ہوگی۔ قمر زمان کائرہ کی آنکھوں سے بھی خون آنسو بن کر ٹپک رہا ہوگا اور اُس جواں مرگ کے والدین بھی خون کے آنسو روئے ہوں گے جو قمر زمان کے بیٹے کے ساتھ کار میں سفر کررہا تھا اور حادثے میں وہ بھی جاں بحق ہوگیا۔
میں قمر زمان کائرہ سے پوری زندگی میں صرف دو ایک بار ملا ہوں گا مگر میں ہر مرتبہ اُن کی شخصیت سے متاثر ہوا۔ ٹی وی پر اُنہیں سنا اور اُنہیں ایک مہذب سیاستدان پایا، میں اُن کی ذاتی توصیف و تعریف برادرم جہانگیر نواز سے سنتا رہا ہوں۔ کئی دفعہ جہانگیر نے اُن سے میری ملاقات کا سوچا مگر ہر دفعہ کوئی رکاوٹ آڑے آگئی، مگر آج میں یہ کالم صرف اُن سے تعزیت کے لئے نہیں لکھ رہا بلکہ پوری قوم سے دست بستہ ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کی صفوں میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جو سیاست میں گالم گلوچ اور بازاری انداز کا اتنا عادی ہو گیا ہے کہ وہ کسی مرحوم کے لواحقین کے زخموں پر بھی نمک بلکہ مرچیں چھڑکنے سے باز نہیں آتا تو اُس کا معاشرتی بائیکاٹ کریں۔ قمرزمان کائرہ اور اُن کا خاندان کے عظیم صدمے سے گزرا ہے اور یہ نامعلوم نسب کے افراد کائرہ کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ اوئے ڈاکو تمہیں تمہاری لوٹ مار کی سزا اِسی دنیا میں مل گئی ہے۔ کائرہ نے جو لوٹ مار کی ہے اُس کا علم صرف اُنہی کو ہے، پاکستان کی کسی عدالت کو نہیں۔ یہی رویہ، یہی زبان اور لہجہ وہ بیگم کلثوم نواز کی بیماری اور پردیس میں اُن کی وفات کے موقع پر بھی زیرِ استعمال لائے تھے۔ میں نے اپنے 55 سالہ دورِ کالم نگاری میں بڑے بڑے گندے دور دیکھے ہیں لیکن وہ انفرادی نوعیت کے تھے، اب بدتہذیبی ہمارا کلچر بن گئی ہے، چنانچہ بہت سے ملنے والے جن کا کبھی کسی سیاسی جماعت سے جماعتی نوعیت کا تعلق نہیں رہا، وہ بھی اِس گالم گلوچ کے کلچر اور اِس کے ذمہ داروں کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ خدا کے لئے یہ گندہ پانی نالیوں میں بہا دیں تاکہ یہ کسی نالے میں جا گریں اور معاشرہ اِس کی بدبو سے محفوظ ہوجائے۔
باقی رہا وہ سانحہ جس سے کائرہ صاحب اور اُن کا خاندان گزرا ہے تو تسلی کا کوئی لفظ اور صبر کی تلقین کی کوئی بات مجھے نظر نہیں آتی۔ صرف وقت ہی ایک مرہم ہے جو زخموں کو مندمل کرتا ہے۔ میں قمرزمان کائرہ سے البتہ یہ التجا کروں گا کہ اُنکی پریس کانفرنس کے دوران، اُنہیں جب یہ خبر سنائی گئی تو اُن کے چہرے سے صرف اُن کا باوقار غم چھلکتا نظر آیا، بعد میں وہ جی بھر کر روئے ہوں گے اور اُس کے بعد بھی بہت عرصہ تک جب وہ اپنے گھر کے کسی کمرے میں جائیں گے اُنہیں اپنے بیٹے اسامہ کی آوازیں سنائی دیں گی۔ اُس کے کپڑے، اُس کے جوتے اور اُس سے متعلق دوسری چیزیں اُنہیں بلک بلک کر رونے پر مجبور کردیں گی مگر میری اُن سے گزارش ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ یہ سانحہ اُن کے نظریے کی آب و تاب میں اضافہ کرے گا اور وہ اپنے پیارے پاکستان کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
آخر میں حسن عباسی کے دکھ اور درد کی چادر میں لپٹے ہوئے اسامہ قمر کے حوالے سے کہے گئے مرثیے کے چند اشعار؎
اداس چاند کھلے پانیوں میں چھوڑ گیا
وہ اپنا چہرے میرے آنسوں میں چھوڑ گیا
ہوا کے جھونکے سے لرزی تھی ایک شاخِ گل
کسی کا دھیان مجھے خوشبوئوں میں چھوڑ گیا
یہ کس نے ہمیں بلایا شکستہ مٹی سی
پھر اُس کے بعد گھنی بارشوں میں چھوڑ گیا
اِس اہتمام سے بکھرے ہوئے ہیں پھول حسن
نشانی جیسے کوئی راستوں میں چھوڑ گیا