شہر کے ظالم لوگ اور مرنے کا شوق!
میں نے ایک دفعہ اپنے ایک دوست کا ذکر کیا تھا، جس کی محبت کی زد میں اس کا ہر ملنے والا آتا ہے۔ یہ اتنا کیئرنگ ہے کہ ہر وقت اپنے ملنے والوں کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے پر کمر بستہ دکھائی دیتا ہے، مثلاً وہ جب کبھی مجھے ملنے آتا ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ اُسے پتا نہ چلے کہ آئندہ چند لمحوں میں مَیں کیا کرنے والا ہوں کیونکہ وہ مجھ سے پہلے وہ کام کر گزرے گا۔
میرے اُس دوست کے گھر میرا ایک اور دوست مہمان ٹھہرا۔ وہ مجھے اپنی بپتا سناتے ہوئے بتا رہا تھا کہ اُس کی دو دن کی بھرپور میزبانی سے میں "نکونک" آگیا۔ وہ سائے کی طرح میرے ساتھ لگا رہتا تھا، وہ ہر وقت اِس فکر میں نظر آتا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں، میں کچھ وقت تنہا بھی رہنا چاہتا تھا لیکن وہ میرے پاس آکر بیٹھ جاتا اور اس امر کی کڑی نگرانی کرتا اور ٹوہ لگاتا کہ مجھے اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات تو وہ میری سوچوں میں بھی داخل ہو جاتا، سوچیں تو انسان کو ہر طرح کی آتی ہیں چنانچہ میں نے احتیاطاً دو دن اس دوست کی موجودگی میں اپنی سوچوں کو سنسر کرنا شروع کر دیا۔
ان دو دنوں میں میرے کپڑے مجھے استری شدہ ملتے تھے، جوتے پالش سے چمک رہے ہوتے تھے، اگر کسی قمیص کا بٹن ٹوٹا ہوتا تو اس کی جگہ نیا بٹن لگ جاتا، سونے سے پہلے اس کا ملازم میری مٹھی چانپی بھی کرتا، میں نے گھر سے نکلنا ہوتا تو وہ مجھے میری وہ تمام ضرورت کی چیزیں یاد دلاتا، جو میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ میں اس کا بہت ممنون تھا، پریشان صرف اس روز ہوا جب ایک دن پتلون پہنتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ پتلون کی زپ پھنس گئی ہے اور وہ کام نہیں کر رہی، میں ابھی اس کا مداوا سوچ ہی رہا تھا کہ میرا یہ دوست برق رفتاری سے زپ کی طرف بڑھا اور ایک دم اوپر کی طرف کھینچ دی، جس پر میری چیخ نکل گئی، اس دلخراش حادثہ کے بعد میں نے اس کا گھر چھوڑ دیا۔
میرا یہ دوست، میرے خیال میں اس کا کوئی نام رکھ لینا چاہئے تاکہ لفظ دوست کی تکرار نہ ہو۔ تو آپ سمجھیں اس کا نام ارشد ہے، سو ارشد دوست احباب کے لئے ہر وقت صرف برسر عمل نظر نہیں آتا بلکہ انہیں اپنے مشوروں سے بھی نوازتا رہتا ہے۔ انہیں طبی مشورے بھی دیتا ہے، روحانیت سے بھی اسے شغف ہے، چنانچہ اس حوالے سے بھی ان کی مدد کا خواہاں ہوتا ہے۔ اسے سیاست سے بھی گہری دلچسپی ہے، چنانچہ اپنے سیاسی احباب کو گائیڈ لائن بھی دیتا رہتا ہے۔ جہاں تک طب کا تعلق ہے وہ علاج بالماء یعنی پانی سے علاج کا بہت قائل ہے۔ "راوی" کے مطابق اس نے اپنی کالی رنگت کو گورا کرنے کے خواہشمند ایک صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ شدید سردی کے موسم میں رات تین بجے پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں برف ڈال کر اس سے نہا لے تو اس کی رنگ صاف بلکہ گورا ہو جائے گا۔ ان صاحب نے اس مشورے پر عمل کیا اور راوی کے مطابق واقعی اگلے روز ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ "کیا نور چڑھا ہے مرحوم کے چہرے پر"۔
جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو گیا کہ ارشد میرا قریبی دوست ہے اور یوں میں اس کے مشوروں کی زد میں آتا رہتا ہوں۔ مجھے وہ زیاہ تر سیاسی مشورے دیتا ہے، وہ اکثر کہتا ہے کہ کالم گول مول لکھا کریں، کسی کو پتا نہ چلے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اس میں سے اپنا مطلب نکالتے رہیں۔ وہ اس ضمن میں مجھے تجریدی آرٹ کے شہ پاروں کی مثال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب ان کی طرح آپ کی بات بھی کسی کے پلے نہیں پڑے گی تو آپ کا بھی ہر کالم ایک شہ پارہ ہی سمجھا جائے گا۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ کوشش تو میری بھی یہی ہوتی ہے لیکن شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور کچھ مجھے بھی مرنے کاشوق ہے۔