روتے ہوئے عوام اچھے لگتے ہیں!
مجھے اپنے پرائمری اسکول کے ایک ماسٹر صاحب کبھی نہیں بھولتے ان کا نام چراغ دین تھا، چراغ دین کا رنگ ویسا تھا جیسا چراغ تلے ہوتا ہے۔
ماسٹر چراغ دین کی کلاس میں لڑکے شرارتیں بہت کرتے تھے اور ان شرارتوں پر قابو پانے کا طریقہ ماسٹر صاحب کی اپنی ایجاد تھا۔ وہ ڈنڈا لہراتے ہوئے کلاس روم کے شریف النفس طالب علموں پر بھی حملہ آور ہو جاتے کہ وہ ہر ایک کو شک کی نظروں سے دیکھتے تھے، ہمارے یہ "شکی القلب" ماسٹر صاحب بہت دکھی قسم کے انسان تھے مگر انہوں نے اپنے دکھوں کی تفصیل کبھی بیان نہیں کی، صرف ایک دفعہ اپنی اس بدقسمتی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے کہ ملک میں روزانہ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں، کیسے کیسے نالائق لوگ وزیر بنائے جاتے ہیں مگر وزارتِ تعلیم کے لئے کسی کی نظر ان پر نہیں پڑتی حالانکہ انہوں نے اتنے اچھے نمبروں میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا ہوا ہے۔ غالباً انہی بدقسمتیوں کی وجہ سے وہ مسکرانے کے خلاف اور ہنسنے کے تو انتہائی دشمن تھے۔ فرمایا کرتے اگر میں ملک کا وزیراعظم ہوتا تو ایک قانون پاس کرتا کہ جو ہنسے اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے چنانچہ کلاس میں اگر کسی کو ہنستے دیکھ لیتے تو اسے رونے پر مجبور کر دیتے۔ بعض اوقات تو مار کھانے والا دھاڑیں مار مار کر روتا۔ ان لمحوں میں وہ اسے پچکارتے، پیار کرتے اور کہتے "تمہیں اس وقت اندازہ نہیں ہو سکتا کہ روتا ہوا انسان کتنا خوبصورت لگتا ہے۔ اگر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہو تو گھر جاکر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر رونا اگر رونے میں کوئی دقت پیش آئے تو مجھے بلا لینا"!
ماسٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی ابتدا اور انتہا رونا ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے۔ مرتا ہے تو رو رو کر لوگوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شادی کے وقت دلہن روتی ہے، اس کے والدین اور بہن بھائی روتے ہیں جس پر ایک دفعہ ایک لڑکے نے کہا، صاحب دُلہا تو ہنس رہا ہوتا ہے جس کے جواب میں ماسٹر صاحب بولے، پھر اس کے بعد ساری عمر روتا بھی تو وہی ہے۔
ماسٹر چراغ دین بہت سے دوسرے معاملات میں بھی منفرد خصوصیات کے مالک تھے۔ باقی سارے اساتذہ طالب علموں کو پرائیویٹ ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتے تھے مگر چراغ دین اس معاملے میں بااصول شخص تھے۔ کسی بچے کو ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرنا بنیادی حقوق کے منافی فعل ہے۔ چنانچہ انہوں نے کسی بچے کو کبھی ٹیوشن کی ترغیب نہیں دی۔ اگر کسی بچے کے والدین خود درخواست کرتے تو مان جاتے۔ یہ ان کی اسی بے غرضی کا قدرت کی طرف سے انعام تھا کہ ان سے ٹیوشن پڑھنے والے بچے ہر کلاس میں اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتے اور جو ان سے ٹیوشن نہیں پڑھتے تھے وہ لاکھ ذہین اور قابل ہوتے مگر خدا کی قدرت کہ فیل ہو جاتے۔ ماسٹر صاحب کے حسنِ نظر کی یہ کرامت کہ ایک وقت ایسا آیا جب پوری کی پوری کلاس ان سے ٹیوشن پڑھنے لگی اور اللہ کی قدرت دیکھیں کہ اس کے بعد سے کلاس کا کوئی بھی لڑکا ماسٹر صاحب کے مضمون میں فیل نہیں ہوا۔
اللہ اللہ کیسے بااصول لوگ تھے۔ اب تو وہ استاد رہے اور نہ ویسے طالب علم جو استاد کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے آج بھی کبھی بیٹھے بیٹھے ماسٹر چراغ دین کی یاد آتی ہے تو عقیدت سے میری آنکھیں ڈبڈبا آتی ہیں۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہم لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ یہ دعا مانگتے ہوئے اچانک میرے ذہن میں خیال آیا ہے کہ اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی تو کیا بنے گا کیونکہ میں تو بے دھیانی میں اپنے مرحوم استاد ماسٹر چراغ دین کے لئے یہ دعا مانگ بیٹھا ہوں جنت میں تو لوگ ہنس کھیل رہے ہوں گے اور یہ چیز ماسٹر صاحب کے لئے روحانی اذیت کا باعث بنے گی بلکہ خود انہیں بھی خوش رہنے کے بے شمار مواقع ملیں گے جو ان کےلئے شاید قابل قبول نہ ہوں اس کے علاوہ انہیں تھوک کے حساب سے حوریں بھی الاٹ ہوں گی اور اپنے شکی مزاج ہونے کی وجہ سے وہ ان پر بھی کسی نہ کسی قسم کے شک کی گنجائش نکال ہی لیں گے۔ ایک خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا جو میں نے فوراً اپنی طبعی نرم خوئی کی وجہ سے رد کر دیا کہ ان کے لئے جنت کی بجائے جہنم کی دعا کیوں نہ مانگی جائے جہاں دروغہ جہنم گرز مار مار کر ان کا بھرکس نکال دے اور پھر وہ آئینے میں اپنا روتا ہوا چہرہ دیکھیں جس کی بات وہ کیا کرتے تھے کہ روتے ہوئے لوگ بہت خوبصورت لگتے ہیں۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو، غریب عوام کے ساتھ یہ سلسلہ اسی دنیا میں ہو رہا ہے۔ ماسٹر صاحب کی روحانی خوشی کے لئے یہی کافی ہے!