پوچھیں جو پوچھنا ہے!
کالموں کے قارئین کالم نگاروں کو صرف شہری نہیں، نجومی بھی سمجھتے ہیں چنانچہ وہ اُنہیں جہاں کہیں بھی ملیں، اُن سے مستقبل کے حالات جاننا چاہتے ہیں۔ ہر ایک یہ پوچھتا ہے "جناب! آئندہ کیا ہونے والا ہے؟" ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے "جناب! یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"
سوال کرنے والے کے لہجے میں اتنا غصہ ہوتا ہے کہ لگتا ہے جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ سب اسی کالم نگار کا کیا دھرا ہے! تاہم جیسا کہ میرے قارئین جانتے ہیں، کیونکہ میں اس کا ذکر اپنے کالم میں کر چکا ہوں، کہ میں نے ایک ایسی گھڑی ایجاد کر رکھی ہے جو ٹائم بتاتی نہیں بلکہ الٹا ٹائم پوچھتی ہے، سو میرا اپنا معاملہ بھی اس گھڑی جیسا ہی ہے۔ پیشتر اس کے کہ کوئی مجھ سے مستقبل کا حال جاننے کی کوشش کرے، الٹا میں اُس سے پوچھنے لگتا ہوں "جناب! آئندہ کیا ہونے والا ہے؟"
اِس پر وہ سٹپٹا کر رہ جاتا ہے اور یوں اُن لامتناہی سوالات کا فوری "سدباب" ہو جاتا ہے جن کا سامنا پہلے سوال کا جواب دینے کے بعد مجھے کرنا پڑ سکتا تھا۔ مستقبل کے حوالے سے کئے جانے والے سوال کا جواب دینے میں ایک اندیشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ "سائل" آپ کے جواب سے مطمئن ہونے کی صورت میں اپنی ہتھیلی آپ کے سامنے پھیلا دے اور کہے "جناب لگے ہاتھوں ذرا یہ بھی بتا دیں کہ میری شادی میں رکاوٹیں ڈالنے والا کب فوت ہو گا؟"
ظاہر ہے علمِ نجوم سے اگر مجھے کوئی واقفیت ہے تو بھی میں اس سوال کا جواب دینا پسند نہیں کروں گا اور اس کی وجہ ممکن ہے صرف سوال کرنے والا ہی جانتا ہو!
میں جانتا ہوں یہ کالم پڑھتے ہوئے آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال کلبلا رہا ہوگا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے، حکومت جا رہی ہے یا نہیں۔
محض اپنی عزت رکھنے کے لئے آپ کو بتاتا چلوں کہ حکومت کے جانے یا نہ جانے کا انحصار سونامی پر ہے اگر اس "سونامی" کا قبلہ درست نہ ہوا تو موجودہ سیٹ اَپ برقرار نہیں رہے گا، بصورتِ دیگر سونامی کے ساتھ آنے والی زرخیز مٹی سے اپوزیشن کی مرجھائی ہوئی فصلیں دوبارہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگیں گی۔
آپ کو ایک راز کی بات اور بتا دوں، وہ یہ کہ بالادست طبقے کو ہمیشہ نامقبول حکومتیں اچھی لگتی ہیں کیونکہ وہ صرف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوتی ہیں جبکہ گاڑی کوئی اور ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے۔
بالا دست طبقہ اگر کبھی چہرہ شناسی میں غلطی کر بیٹھے تو بھٹو اور نواز شریف کی مثالیں سامنے ہیں۔ بھٹو کی جان عدالت نے لے لی تو بالآخر جان چھڑا لی گئی لیکن نواز شریف ابھی تک بالا دست طبقے کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے۔
مجھے علم ہے کہ ان سطور کی اشاعت کے ساتھ ہی کسی "خمار آلود" شام میں انٹرنیٹ پر بیٹھے یار لوگ کروڑوں روپے میرے بینک اکاؤنٹ میں ڈال دیں گے اور میری ساری جیبیں لفافوں سے بھی بھر دیں گے نیز میرے حسب نسب کو بھی ہاکی کے اناڑی کھلاڑی کی طرح گیند اپنی ہی "ڈی" میں لے جائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ میں "مستقبل کا حال" بتانے سے گریز کرتا ہوں لیکن اب تو بتا دیا ہے!
اور ہاں ان باتوں سے قطع نظر، میڈیا پرسنز کے بارے میں یہ خوش فہمی بھی عام ہے کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں، حکمران ان کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں چنانچہ وہ ان سے جو کام کہیں، وہ چشم زدن میں ہو جاتا ہے یعنی میڈیا پرسنز کسی میٹرک پاس کو کسی محکمے کا ڈائریکٹر جنرل لگوا سکتے ہیں اور آرٹس والے کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ دلا سکتے ہیں اور اس کے علاوہ چھوٹی موٹی نوکریاں اور پوسٹنگ ٹرانسفر تو ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
اس خوش فہمی کا سبب یہ ہے کہ ایک عام آدمی انہیں پریس کانفرنسوں اور دوسرے مواقع پر انہی حکمرانوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے اور اگر کوئی ان کا کام نہیں کر رہا تو وجہ صرف یہ ہے کہ وہ کام کرنا نہیں چاہتا۔
ان کا یہ خیال اتنا غلط بھی نہیں ہے لیکن انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ حکمرانوں سے کام لینے کے لئے حکمرانوں کے "کام" بھی کرنا پڑتے ہیں جو لوگ اپنے ضمیر کے خلاف جا سکتے ہیں، وہ واقعی ہر کام کرانے پر قادر ہوتے ہیں لیکن ضمیر کے قیدی اگر کسی کے حق یا مخالفت میں لکھتے ہیں تو ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا، یہ اپنے ضمیر کے گھڑے کی مچھلی ہیں اور گھڑے کی مچھلی کی اوقات کا تو سب کو علم ہے!