Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Ata Ul Haq Qasmi/
  3. Baqi Aap Ki Marzi!

Baqi Aap Ki Marzi!

باقی آپ کی مرضی!

گزشتہ روز ایک صاحب غریب خانے پر تشریف لائے اور آتے ہی ہاتھ فاتحہ خوانی کے لئے فضا میں بلند کر دیئے۔ میں نے بھی پیروی کی اور ایک دفعہ الحمد شریف اور تین دفعہ قل شریف پڑھ کر اس مرحوم کی مغفرت کی دعا کی جس کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا تھا۔

دعا سے فارغ ہوئے تو موصوف نے کہا، بہت دکھ ہوا، ہوا کیا تھا انہیں؟ تب مجھ سے نہ رہا گیا سو میں نے پوچھا "آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟" بولے، آپ کی سب سے بڑی ہمشیرہ کی وفات حسرت آیات کا پتا چلا تھا، کیا وہ بیمار تھیں؟ میں نے اپنے دلی جذبات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا "برادر، ان کی وفات کو آٹھ برس گزر چکے ہیں "۔

بولے میں مصروف رہا، آج وقت ملا، سوچا آپ سے تعزیت اور مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کر آئوں، دعا تو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے! اس کے بعد وہ اٹھے اور ہاتھ ملا کر رخصت ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ وہ میرے ایک ہمسائے سے ملنے آئے تھے، سو انہوں نے سوچا کیوں نہ میری اس ہمشیرہ کے لئے دعائے مغفرت بھی کرتے جائیں جو آٹھ برس قبل فوت ہو چکی ہیں ... کہ دعا تو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔

اور ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا، ایسا بہت سوں کے ساتھ ہوتا ہے، کوئی صاحب اپنے بیٹے کی شادی اور ولیمے وغیرہ سے فارغ ہو کر دوسرے شہروں سے آئے ہوئے عزیز و اقارب کے ساتھ خوشگوار ماحول میں گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں کہ اس دوران اچانک ایک تعزیت کنندہ نمودار ہوتا ہے اور ان کے کسی ایسے عزیز کے لئے فاتحہ خوانی شروع کر دیتا ہے جس کی وفات کو اتنا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے کہ اگر وہ نیک تھا تو قبر میں ٹھنڈی ہوائوں کا لطف اٹھا رہا ہوتا ہے اور یوں اسے اس دعا کی کچھ زیادہ حاجت نہیں رہی ہوتی اور اگر گنہگار تھا تو اس کی چھترول ہو چکی ہوتی ہے اور یوں یہ فاتحہ خوانی زیادہ سے زیادہ اس کے اتنے کام آتی ہے کہ چھتر مارنے والے فرشتے ذرا ہاتھ ہولا رکھیں گے۔

فاتحہ خوانی کرنے والوں کے میں نے اور بھی کئی کرتب دیکھے ہیں۔ ایک دفعہ بازار سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ پندرہ بیس لوگ ایک جگہ کھڑے فاتحہ پڑھ رہے ہیں، میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ فراغت پر میں نے ایک صاحب سے پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ اس نے کہا اللہ بہتر جانتا ہے۔ میں ادھر سے گزر رہا تھا، لوگ دعا مانگ رہے تھے میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ دوسرے سے اور پھر تیسرے سے، چوتھے سے پوچھا تو سب نے یہی جواب دیا، بالآخر میں "کھرا" ناپتے ہوئے اصل شخص تک پہنچ گیا،

میں نے اس سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ اس نے کھنچے ہوئے چہرے سے جواب دیا میں اس دکان پر اپنے لئے بنیانیں اور انڈر ویئر خریدنے آیا تھا اتنے میں ایک صاحب آئے اور بولے مجھے پتا چلا کہ آپ کی پھوپھی صاحبہ کی ایک کزن کی بیٹی چند برس ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئی تھی، فاتحہ کے لئے ہاتھ اٹھائیے! میں نے اٹھا دیئے، سڑک پر سے گزرتے ہوئے لوگوں نے میری پیروی کی جن میں شاید آپ بھی شامل ہیں، میں نے پوچھا یہ صاحب ہیں کون؟ بولے، پہلے تو میں انہیں پہچان ہی نہیں سکا، اب یاد آیا کہ کسی زمانے میں یہ ہمارے محلے میں رہا کرتے تھے۔

اور اب آخر میں میری بھی سن لیجئے۔ مجھے جس کسی دوست کے حوالے سے بری خبر ملتی ہے تو اگر وہ بہت قریبی دوست ہے تو میں پہلے اس کے گھر جاتا ہوں اور سوگوار اہل خانہ کے غم میں خاموشی سے شریک ہوتا ہوں اور پھر نماز جنازہ میں شامل ہوتا ہوں، میں اس کے قلوں میں بھی شرکت کرتا ہوں لیکن اگر معاملہ مرحوم سے علیک سلیک اور کبھی کبھار ملاقات کا تھا تو اس کے قلوں میں شرکت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہوں اگر کسی بڑی مجبوری کی وجہ سے شرکت سے محروم ہو جائوں اور اس کے بعد دس بارہ دن تک بھی اس کے اہل خانہ سے تعزیت کا موقع نہ ملے تو شدید احساس جرم کا شکار ہوتا ہوں، مگر زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ہنستے گھر کو دوبارہ ماتم کدہ بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔

بس گھر میں بیٹھے جب بھی موقع ملتا ہے اس کے لئے دعا کرتا ہوں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نماز جنازہ، قل اور چہلم وغیرہ کے پیچھے بہت بڑی دانائی بھی ہے اور وہ یہ کہ آپ نماز جنازہ میں شرکت کر سکتے ہیں تو یہ سب سے افضل ہے، اگر مصروفیت کی وجہ سے محروم رہ جائیں تو قلوں میں شریک ہو جائیں اور اگر بوجوہ یہ بھی ممکن نہ ہو سکے تو چہلم میں شریک ہو جائیں۔

سوگ چالیس دن کا ہوتا ہے، ہندوئوں کے ہاں تو چالیس دن بعد بڑے بیٹے کی دستار بندی کرکے اسے دکان پر جاکر بیٹھا دیتے ہیں کہ اب کاروبار زندگی شروع کر دو مگر ہم لوگ جہاں بہت سے معاملات میں دوسروں کی سہولت کا خیال نہیں رکھتے،

مثلاً فون ملا دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ممکن ہے جسے آپ فون کر رہے ہیں وہ اس وقت باتھ روم میں کسی "مشکل" میں گرفتار ہو، یارو! کسی کو فون کرنے سے پہلے اسے میسج کے ذریعے پوچھ لو یا فون ہی پر پوچھ لو کہ کیا اس وقت آپ سے بات ہو سکتی ہے۔

اس طرح اگر کسی سے تعزیت کرنا ہے تو بھی پہلے پتا کر لو کہ ایسا نہ ہو کہ جب آپ کا تعزیتی فون اسے ملے اور وہ اپنے کسی عزیز کی شادی کی تقریب میں بھنگڑا ڈال رہا ہو۔ باقی آپ کی مرضی!

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.

Check Also

Jadu Toona Aur Hum

By Mubashir Aziz