ایک تھے غلام ربانی آگرو!
میں ان دنوں بہت عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہا ہوں آئے روز کسی کی جدائی کی خبر موصول ہوتی ہے۔ ابھی انوار قمر نے خبر دی کہ افتخار مجاز انتقال کر گیا ہے۔ ہر وقت ہنستا مسکراتا شخص اچانک دنیا سے روٹھ کر کسی اور دنیا میں چلا گیا۔ میں اپنے موبائل میں جب کسی دوست کا نمبر تلاش کر رہا ہوتا ہوں تو ایسے بہت سے نمبر سامنے آتے ہیں جنہیں وفات پائے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر میں نے کبھی اپنے کسی مرحوم دوست کا نمبر ڈیلیٹ نہیں کیا۔
گزشتہ روز بیٹھے بٹھائے مجھے غلام ربانی آگرو یاد آئے، دراز قد، ہر وقت ہنستا مسکراتا چہرہ، ایک بڑے اسکالر اور ایک بڑے انسان۔ آگرو اکیڈمی آف لیٹرز کے چیئرمین کے طور پر ریٹائر ہوئے میں جب کبھی اسلام آباد جاتا تو جن دوستوں سے ملاقات رہتی، ان میں شفیق الرحمان، مظہر الاسلام، پروفیسر فتح محمد، ملک پریشان خٹک، کرنل محمد خاں، منصور قیصر، محمد منشاء یاد، مسیح الدین صدیقی، صدیق سالک، سید ضمیر جعفری، احمد فراز، انعام الحق جاوید، پروین شاکر، جلیل عالی، احسان اکبر، ممتاز مفتی اور کتنے ہی سینئر اور ہم عصر دوستوں سے ملاقات رہتی اس طرح مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں جب کبھی اسلام آباد گیا اور غلام ربانی آگرو سے میری ملاقات نہ ہوئی ہو۔ کبھی تو ان سے ون ٹو ون ملاقات ہوتی مگر ایسا بہت کم ہوتا، کیونکہ ضمیر جعفری، صدیق سالک اور غلام ربانی آگرو "تھری ان ون" کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ یہ تینوں شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو جب یہ اکٹھے نظر نہ آتے ہوں۔ چنانچہ ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لئے چوتھا درویش یعنی میں ان کے درمیان ہوتا یہ رنگ میں بھنگ ڈالنے والا محاورہ میں نے دو وجوہ کی بناء پر استعمال کیا۔ ایک تو یوں کہ مجھے اس محاورے کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ نہ کبھی بھنگ پی ہے کہ اس کے ذائقے سے واقفیت ہو اور نہ ہی یہ علم ہے کہ اس میں کوئی رنگ ڈالا جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ محاورے کے استعمال کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اکثر اہل علم اپنی تحریروں میں محاورے ضرور شامل کرتے ہیں۔ چنانچہ خود کو اہل علم ثابت کرنے کے لئے اس محاورے کی ایسی کی تیسی کر دی۔
کالم نگار کا پرابلم یہ ہوتا ہے کہ اس کی تحریر بھٹکتی بہت ہے۔ مثلاً آگرو صاحب کے ذکر ہی کو لے لیں مجھے تو ان کی شخصیت کے بعض دوسرے پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالنا تھی مثلاً یہ کہ قیام پاکستان کے بعد بہت سے ہندو رائٹر بھارت چلے گئے اس خلا کو بعد میں دوسرے سندھی افسانہ نگاروں نے پُر کیا۔ جن میں غلام ربانی آگرو کا نام سرفہرست ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ان کا نام سندھی افسانہ نگاری کے بانیوں میں لیا جاتا ہے بلکہ تین افسانہ نگاروں غلام ربانی آگرو، جمال ابرو اور ایاز قادری نے سندھی افسانے کو جلا بخشی اور پھردیے سے دیا جلتا چلا گیا۔ آگرو کے افسانے سماجی اور سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ہیں مگر پھر بعد میں اللہ جانے انہوں نے افسانے کو خیر باد کیوں کہا۔ میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو ازرائہ تفنن کہنے لگے "انسان کو افسانوی دنیا سے باہر بھی تو آنا چاہئے" تاہم ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ انہوں نے سندھ کی ادبی سماجی اور سیاسی شخصیات پر مضامین لکھے اور انہیں "چہرا گل گلاب چا" (گلاب جیسے چہرے) کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع کر دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعدد تحقیقی مقالے لکھے۔ آگرو بھائی نے "سندھی کلچر پس منظر اور پیش منظر" کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی جو سندھی میں تھی اور پھر اسے اردو میں بھی شائع کیا۔ ان کا ایک اور وقیع کام انگریزی ادب کا سندھی میں ترجمہ کرنا بھی تھا۔ میرے بھائیوں جیسے اسکالر دوست ڈاکٹر قاسم بھائیو کی طرح غلام ربانی آگرو بھی سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز کے ادبی مداحوں میں شامل تھے۔ شیخ ایاز سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے تو انہوں نے یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار پرووائس چانسلر کا عہدہ تخلیق کیا اور یہ اعزاز آگرو صاحب کے حصے آیا۔ بعد میں اس وقت کے وزیر تعلیم ڈاکٹر افضل جو بہت ادب دوست تھے، انہیں اسلام آباد لے آئے اور اکیڈمی آف لیٹرز میں انہیں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کیا۔ یہ 1984 کی بات ہے۔ بعد میں ترقی کرتے کرتے وہ اکیڈمی کے چیئرمین بنے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ان کے صاحبزادے عزیز آگرو سے میں نے پوچھا کہ اسلام آباد میں ملازمت کرنے والے اسلام آباد ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیا آگرو صاحب کا دل اسلام آباد میں نہیں لگا جو وہ واپس سندھ چلے گئے؟ بولے "اسلام آباد میں ان کے پاس رہائش کے لئے کوئی گھر نہیں تھا۔ سو وہ واپس چلے آئے ویسے بھی وہ سندھ دھرتی ہی میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ "
کالم نگاری کی یہ "کرتوت" آپ نے دیکھی کہ ہلکی پھلکی گفتگو سے بھٹک کر خوامخواہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ بہرحال مقصد تو ایک عظیم انسان عشاق اور اپنے دوست کو یاد کرنا تھا جس نے قاسم بھائیو کی طرح اکیڈمی آف لیٹرز کو نئی زندگی بخشی مجھے آگرو بھائی زندگی کے کئی مواقع پر بہت یاد آئے۔ ان کی چہکاریں اور ان کی بزم سنجی بھی یاد آتی رہی۔ ان کی یاد کے ساتھ صدیق سالک اور ضمیر جعفری کی یاد بھی جڑی ہوئی ہوتی۔ اب یہ تینوں دوست ہماری دنیا میں نہیں ہیں۔ کسی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں۔ وہی حیرانی در حیرانی والا معاملہ ہے۔ یہ دنیا کیوں بنائی گئی۔ ہمیں یہاں کیوں اتارا گیا اور پھر واپس بھی کیوں بلا لیا جاتا ہے۔ ؎
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
ہم سب قطار میں کھڑے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ جانا تو ہم سب نے ہے مگر آگرو بھائی آپ نے کچھ زیادہ ہی جلدی سے کام لیا۔ ؎
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور