یہ الحاق تھا یا عبوری الحاق؟ انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
مہاراجہ کے بھارت سے کیے گئے نامعتبر الحاق کے بارے میں ایک اہم ترین حقیقت ہمارے ہاں کبھی زیر بحث نہیں آئی کہ یہ الحاق نہیں تھا، یہ عبوری الحاق تھا اور یہ بات دستاویز ات میں درج ہے کہ اس الحاق کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کشمیر نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ وہاں تحریری طور پر یہ ضمانت موجود ہے کہ اس عبوری الحاق کے باوجود کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ابھی باقی ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔ تو کیا خیال ہے تھوڑا سا ،مطالعہ ہندوستان، ہو جائے؟
اس پہلو پر تو ہم بات کر چکے کہ بھارت کی فوجیں پہلے سری نگر میں اتریں اور الحاق کی نامعتبر دستاویز پر مہاراجہ نے بعد میں دستخط کیے۔ جب فوجیں اتر چکیں اور مہاراجہ دستخط کر چکا تو یہ دستاویز اسی روز بھارتی گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کو پہنچائی گئی اور اسی روز بھارت کے گورنر جنرل مائونٹ بیٹن اسے قبول کرتے ہوئے مہاراجہ کو خط لکھ کر اطلاع دی۔ اس خط میں مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ چونکہ ہماری یہ پالیسی رہی ہے کہ جس ریاست میں الحاق پر تنازع پیدا ہو جائے گا وہاں الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کریں گے، اس لیے ہمارا اب بھی فیصلہ یہ ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی کشمیر کے الحاق کا مسئلہ کشمیر کے عوام کے سامنے رکھا جائے گا اور وہی اس پر فیصلہ کریں گے۔ غور فرمائیے مائونٹ بیٹن الحاق قبول کر چکے ہیں لیکن مہاراجہ کو لکھ رہے ہیں کہ الحاق کا حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے اور وہ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کر لیجیے کہ مہاراجہ کے الحاق کی خود بھارت کی نظر میں کیا حیثیت تھی۔
بھارت کا اس نکتے پر انتہائی بچگانہ موقف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مائونٹ بیٹن کے اس وعدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ انہوں نے نجی حیثیت میں ایک خط لکھ کر کیا اور یہ خط الحاق کی دستاویز کا حصہ نہیں ہے۔ الحاق کی دستاویز میں ایسا کچھ نہیں لکھا کہ اس الحاق کے باوجود ابھی کشمیر کا فیصلہ باقی ہے اور یہ فیصلہ عوام کریں گے اس لیے اس خط کی کوئی وقعت نہیں ہے نہ ہی بھارت اس کے مندرجات کا پابند ہے۔ بھارت کے نزدیک الحاق کی دستاویز صرف ایک ہی ہے اور لارڈ مائونٹ بیٹن کا خط اس دستاویز کا حصہ نہیں ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ ایک معاہدہ کرتے وقت جو ٓافیشل خط و کتابت ہوتی ہے وہ بھی معاہدے کا حصہ ہی ہوتی ہے اس لیے لارڈ مائونٹ بیٹن کا یہ خط بھی الحاق کی دستاویز کا حصہ سمجھا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس نکتے پر انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے؟
انٹر نیشنل لاء پاکستان کے موقف کی تائید کرتا ہے۔ ویانا کنونشن آن دی لاء آف ٹریٹیز کے آرٹیکل 2 کی کلاز (a) میں Treaty کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
"Treaty" means an international agreement concluded between States inwritten form and governed by international law، whether embodied in a single instrument or in two or more related instruments and whatever its particular designation;
اس تعریف میں دو باتیں اہم ہیں۔ اول: معاہدہ کے لیے ایک دستاویز کی شرط ضروری نہیں۔ متعلقہ دستاویزات کو بھی ٹریٹی ہی سمجھا جائے گا۔ دوم: اس کے لیے particular designation کا ہونا بھی ضروری نہیں یعنی ضروری نہیں کہ ان متعلقہ دستاویزات کا نام بھی وہی ہو جو معاہدے کا ہو۔ یعنی الحاق کی دستاویز سے متعلقہ اگر ایک خط ہے تو وہ بھی " ٹریٹی، ہو گا بھلے وہ الحاق کی دستاویز کی بجائے ایک خط کہلاتا رہے۔ گویا وہانا کنونشن کے نزدیک مائونٹ بیٹن کا یہ خط بھی الحاق کی دستاویز کا حصہ ہے اور اس میں کیا گیا وعدہ دستاویز میں کیا گیا وعدہ سمجھا جائے گا۔ یہ ایک طرح کی " آفر اور ایکسیپٹنس" والا معاملہ تھا اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھا جائے گا۔
لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ بھارت تو اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ یہ ضمانت دے چکا کہ اس الحاق کے باوجود ابھی کشمیر کی قسمت کا نہ صرف یہ کہ فیصلہ باقی ہے بلکہ یہ بھی کہ یہ فیصلہ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔ الحاق کے تین بعد یعنی تیس اکتوبر کو نہرو نے لیاقت علی خان کو ٹیلی گرام بھیجا اور اس میں بھی لکھا کہ بھارت اپنے گورنر جنرل کے دیے عہد پر قائم ہے اس ٹیلی گرام کے الفاظ قابل غور ہیں۔ نہرو نے لکھا : " ہم یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم بہت جلد کشمیر سے فوجیں نکال لیں گے اور ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے اور یہ وعدہ محض حکومت پاکستان سے نہیں ہے، یہ وعدہ کشمیریوں سے بھی ہے اور ساری دنیا سے بھی"۔ 2 نومبر کو نہرو نے قوم سے خطاب کیا اور یہی وعدہ بطور وزیر اعظم اپنی قوم سے کیا۔ 15 جنوری کو بھارتی مندوب نے یہی وعدہ سلامتی کونسل میں کیا کہ مہاراجہ کے بھارت سے الحاق سے کشمیر کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔
بھارت نہ صرف مہاراجہ کو خط لکھ کر تسلیم کر چکا کہ آپ کے الحاق کے باجودکشمیر کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے بلکہ بھارت اس حقیقت کا اعتراف وزیر اعظم سے آفیشل خطو کتابت میں بھی کر چکا۔ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بطور ریاست بھی یہی وعدہ کر چکا ہے کہ مہاراجہ کے بھارت سے الحاق کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ ہو گیا بلکہ یہ فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے اور اس کا حق کشمیر کے عوام کو ہے۔ اتنے اعترافات، اتنی ضمانتوں اور اتنے وعدوں کے بعد بھارت اپنے وعدوں اور ضمانتوں سے مکر تو سکتا ہے لیکن اس سے معاملے کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں معاملے کی قانونی حیثیت آج بھی وہی ہے کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ابھی ہونا ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے۔