Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Wazir e Azam Shahid Afridi?

Wazir e Azam Shahid Afridi?

وزیر اعظم شاہد آفریدی؟

سوشل میڈیا پر شاہد آفریدی کی تصاویر زیر بحث ہیں اور کچھ لو گ مضامین باندھ رہے ہیں کہ ایک اور وزیر اعظم تیاری کے مراحل سے گزارا جا رہا ہے۔ اس بحث میں طنز، غصہ، توہین، تضحیک اورجھنجھلاہٹ، سبھی عناصر موجود ہیں۔ بس ایک چیز کی کمی ہے اور وہ ہے اس سارے قصے کا سنجیدہ سماجی مطالعہ۔ ایک طالب علم کے طور، فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے، میں آپ کی خدمت میں چند سوالات رکھ دیتا ہوں۔ آپ کو وقت ملے تو ان پر غور فرما لیجیے۔

پہلا سوال یہ ہے کیا ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ یہاں وزیر اعظم بلاول بھٹو اور مریم نواز وغیرہ ہی بنیں گے اور باقی کے عوام نے وطن عزیز میں ہمیشہ غلام اور رعایا بن کر ہی رہنا ہے؟ غلاموں میں سے کسی نے مسند شاہی پر نگاہ ڈالی تو اس بد بخت کو زن بچہ سمیت کولہو پسوا دیا جائے گا؟ بلاول ایک خطاب کر دیں تو اہل قلم واری جاتے ہیں کہ واہ، سبحان اللہ کیا قیادت پیدا ہو گئی ہے، اللہ اللہ۔ ملک کا مستقبل تو اب بالغ نظر قیادت کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ادھر مریم نواز دو ٹویٹ کر دیں تو گداگران سخن تحریر میں حریت فکر کی چنگاریاں تلاش کر کے مستقبل کی قیادت کی آرتی اتارنے لگ جاتے ہیں۔ مریم نواز کے صاحبزادے کو بھی یہاں مستقبل کا نیلسن منڈیلا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی بصیرت کے دیوان لکھے جاتے ہیں۔ مشکوک وصیت پر یہاں وراثت میں قیادتیں منتقل ہوتی ہیں اور پنگھوڑے کو دستار بنا کر بزرگ سیاست دانوں کے سر پر لپیٹ دیا جاتا ہے تا کہ اس کی برکت سے بزرگان اپنی اس نونہال قیادت کے پیچھے سر جھکا کر کھڑے ہوں اور فیض پائیں۔ لیکن آفریدی کی دو تصاویر بھی سامنے آ جائیں تو اس سماج کی حریت فکر تلوار سونت کر نکل آتی ہے۔ سماجیات میں اس رویے کو کیا نام دیا جائے گا؟ کیا فکری غلامی موزوں رہے گا یا فکری رعیت زیادہ حسب حال ہو گا؟

دوسرا سوال یہ ہے ایک اوسط درجے کے کھلاڑی سے، جس کی کوئی عصبیت نہیں اور نہ کوئی سیاسی مستقبل ہے اتنا خوف کیوں محسوس کیا جا رہا ہے۔ جب بھٹو زندہ ہے اور بیانیہ صرف نواز شریف کے پاس ہے اور تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ تبدیلی کی ٹہنی پر انقلاب کی بلبل نغمہ زن ہے تو ایک کھلاڑی کی چند تصاویر سے اتنا خوف کیوں؟ کیا یہ اندر کا خوف ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ احباب اپنی اس جمہوریت کی حقیقت سے خوب آگاہ ہیں کہ یہ چند گھرانوں کی کنیز ہے اور اب ہر لمحہ انہیں یہ خوف رہتا ہے کہ اس نا مبارک اور نا معتبر بندوبست کو کہیں کوئی چیلنج نہ کر دے۔ خوف اتنا زیادہ ہے کہ شاہد آفریدی کی تصاویر بھی اتنی وحشت زدہ کر دیتی ہیں حالانکہ وہ بھلا آدمی شاید کونسلر کا انتخاب بھی نہ جیت سکے۔ کیا اس پر شکوہ جمہوری عمارت کی بنیادیں اتنی کھوکھلی ہیں کہ شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی کی چار تصاویر سے یہ لرزنے لگ گئی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو آفریدی کی مذمت سے کیا یہ بہتر نہ ہو کہ اپنی بنیادوں پر توجہ فرمائی جائے؟

تیسرا سوال یہ ہے آفریدی یا کوئی اور نوجوان یا کھلاڑی یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اگر میدان سیاست میں آنا چاہے تو کیا اس کے لیے ہمارے مروجہ جمہوری سیاسی کلچر میں کوئی گنجائش ہے؟ کیا یہ بات طے کر دی گئی ہے کہ سیاست کے دروازے چند مخصوص لوگوں پر کھلیں گے اور اس مخصوص پس منظر سے باہر کا کوئی آدمی ان دروازوں پر دستک دینے کی جرأت نہیں کرے گا؟ کسی بھی سیاسی جماعت میں کیا اس بات کی کوئی گنجائش ہے کہ اس خاص پس منظر کے بغیر کوئی آئے اور یہ نام نہاد سیاسی اور جمہوری کلچر اسے قبول کر لے؟ آمریت، کیا شک ہے کہ ایک بری چیز ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے سیاست میں نئے چہرے آمریت ہی کے دور میں متعارف ہوئے۔ یہ بھاری پتھر جمہوری ادوار میں کیوں نہیں اٹھایا جا سکا؟

چوتھا سوال یہ ہے کیا شاہد آفریدی میں اتنی صلاحیت ہے کہ وزیر اعظم بن سکیں؟ ان کی قوت ان کا کرکٹر ہونا ہے اور اس قوت کی بنیاد پر سیاست میں جو فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا وہ عمران خان اٹھا چکے۔ کسی کا خیال ہے کہ بعض قوتیں جسے چاہیں مقبول رہنما دیں تو یہ خام خیالی ہے۔ عمران خان کی اصل قوت بھی یہ تھی کہ لوگ زرداری اور نواز شریف کی سیاست سے بے زار ہو چکے تھے۔ ایک خلاء تھا جسے عمران نے بھر دیا۔ سازگار قوتیں پانی کا بہائو آسان کر سکتی ہیں، بنجر زمین میں چشمے نہیں کھود سکتیں۔ ایسا ہوتا تو جمالی صاحب سے لے کر شوکت عزیز اور معین قریشی تک یہ سارے جلیل القدر لوگ اس وقت ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہوتے۔ آفریدی کا کرکٹر ہونا ان کے لیے ایک بوجھ تو بن سکتا ہے اثاثہ نہیں۔ کیونکہ اب تو لوگ تفنن طبع میں بانوے کا ورلڈ کپ بھی واپس لوٹانے کے امکانات تلاش کرتے پائیے جاتے ہیں۔ پھر آفریدی سے اتنا خوف کیوں؟

پانچویں سوال کا تعلق ہمارے سیاسی کارکنان کی نفسیاتی گرہ ہے۔ وہ خود فریبی میں جی رہے ہیں۔ وہ اپنے نامہ اعمال پر غور نہیں کرتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں اسٹیبلشمنٹ اب ان کے مقابل ایک نیا رہنما تشکیل دے رہی ہے اور آفریدی کی مذمت کر کے وہ اپنے تئیں اسٹیبلشمنٹ کی اس چال کی مزاحمت فرما رہے ہوتے ہیں۔ یہ خود فریبی کی بد ترین صورت ہے۔ کیا شہباز شریف چی گویرا ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ نہیں کرتے؟ کیا زرداری ایسا معاملہ نہیں کرتے؟ خود عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ چیئر مین سینیٹ کے انتخاب میں کیا ہوا تھا؟ ذرا اپنی تاریخ تو دیکھیے صاحب۔ گریبانوں میں جھانکے بغیر یہ صرف آفریدی ہے جو آپ کو لگتا ہے کہ سٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے اور آپ کے خیال میں آپ سب ٹیپو سلطان کی طرح ضمیر کے سپاہی ہیں تو آپ کے لیے دعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے۔

یہ سیاست، اس کے مسند نشیں، اس کے پیادے اور اس کی فصیلوں پر کھڑے پہرے دار سب کو علم ہے یہ ایک کھوکھلا نظام ہے جو پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔ بس اس کے ماتھے پر جمہوریت کا ٹیکہ لگا دیا گیا ہے تا کہ سند رہے اور خاندانی شکنجے کو مضبوط کرنے میں کام آئے۔ عمران سے امید تھی وہ اس شکنجے کو توڑیں گے لیکن آج ان کے دائیں بائیں بیٹھے لوگوں کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ تو خود اس کی گرفت میں آ چکے۔ سیاست کے جن روایتی کرداروں کے خلاف عمران نے جدوجہد کی کامیابی کے بعد وہی کردار مال غنیمت سمیٹ کر لے گئے ہیں۔ جب نظام اتنا کمزور، اتنا کھوکھلا اور اتنا نامعتبر ہو جائے تو پھر آفریدی کی دو تصاویر بھی اسے سازش کی بو آنا شروع ہو جاتی ہے۔ دو شاہی خاندانوں اور ان میں بلاول اور مریم جیسی عالی قدر ہستیوں کے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا مجال وہ وزیر اعظم بننے کا خواب بھی دیکھے۔ شاہد آفریدی کو اس گستاخی کی سزا ملنی چاہیے۔

Check Also

Sattar Faizi Ki Kahani Bhukhi Kutiya

By Rehmat Aziz Khan