Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Thi Khabar Garm Ke Qasim Ke Urein Ge Purze

Thi Khabar Garm Ke Qasim Ke Urein Ge Purze

تھی خبر گرم کہ قاسم کے اڑیں گے پرزے

عجیب دھول اڑائی گئی۔ ایسی کہ الامان۔ قاسم علی شاہ صاحب کی چند تصاویر تھیں اور اعلان عام تھا کہ ایک عدد ویڈیو بھی آنے کو ہے اور پھر قاسم کے اڑیں گے پرزے۔ ہر وہ شخص اس ہانکے کا حصہ بن گیا جس کی تربیت میں کہیں کوئی کمی رہ گئی تھی۔ یہ محض کوئی انفرادی نوعیت کا واقعہ ہوتا تو اس سے صرف نظر کیا جا سکتا تھا لیکن یہ ایک سنگین معاملہ ہے جو بتا رہا ہے کہ یہ معاشرہ اخلاقیات کے باب میں کس خوفناک بحران کا شکار ہو چکا ہے۔

قصہ کیا تھا؟ بس اتنا سا کہ چند تصاویر تھیں۔ اور تصاویر کیسی تھیں؟ بالکل عام سی۔ کھیل کے بعد پسینے سے شرابور کھلاڑی جیسے شرٹ اتار دے۔ یہ تصاویر جس حلیے میں تھیں وہ ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ نہر کنارے، کھیل کے میدان میں، گرم موسم میں گھروں کی چھت پر، محنت مشقت کا کام کرتے ہوئے گھروں کے اندر، دوستوں کی محفل میں، لوڈ شیڈنگ کے وقت گائوں دیہات کی بیٹھکوں میں، کھیتوں میں ایسے مناظر عام ملتے ہیں۔ اپنے گھر میں آرام اور بے تکلفی کے کسی لمحے میں بھی ایسی تصاویر کا بن جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ لیکن ان چند تصاویر پر ایک اودھم مچا دیا گیا اوراس اودھم میں ایسے ایسے شرفاء بے نقاب ہوئے کہ کچھ نہ پوچھیے۔ کیا عجب کہ ابلیس نے بھی سوچا ہو کہ ایسے با مراد وارثان کے ہوتے ہوئے تہہ افلاک اب اس کی کیا ضرورت ہے۔

کچھ وہ تھے جنہوں نے اعلانیہ خبث باطن کا مظاہرہ کیااور کچھ وہ تھے جنہوں نے بظاہرہمدردی کے لبادے میں خبث باطن کو عیاں کیا۔ کوئی بھیڑیے کی طرح پل پڑا اور کوئی لومڑی کی طرح۔ طریق واردات میں فرق تھا، مقصد ایک ہی تھا کہ اس شخص کی دستار ہاتھ آئی ہے اب اس کا کوئی تار سلامت نہ رہے۔

یہ رویہ ایک بیمار نفسیات کی خبر دے رہا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ غصے سے بھرے زومبی شہر میں اتر آئے ہیں کہ کوئی بچ کر نہ جائے۔ ایک بیمارر د عمل تھا کہ آج کے بعد یہ صاحبِ عزت نہ رہے۔ شاید یہ معاشرہ ہر اس شخص سے انتقام لینے پر تلا ہوا ہے جس کی کسی بھی درجے میں عزت اور پزیرائی ہے۔ یہ رویہ بیمار رویہ ہی نہیں ایک آزار بھی ہے۔ اذیت پسند لوگ ہر اس شخص کی پگڑی اچھال کر تسکین محسوس کرتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے اچھی شہرت رکھتا ہو۔ ایسے آدمی کو ذلیل کر کے وہ اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چند گھنٹوں میں جو طوفان بد تمیزی برپا ہوا وہ اس حادثے کی خبر دے رہا ہے جو اس معاشرے پر بیت گیا۔

زومبیوں کو کوئی شخص اپنے سے مختلف دکھائی دے تو وہ اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ کچھ لوگ وہ تھے جن کی عمومی شہرت روشن خیال اور معقول انسان کی ہے لیکن وہ بھی سوشل میڈیا کے چوراہے میں محلے کے اوباشوں کی طرح اعلان عام کر رہے تھے کہ دیکھیے دیکھیے ایک اور مذہبی آدمی بے نقاب ہونے کو ہے۔ بس آپ نے جانا کہیں نہیں ابھی ایک ویڈیو آنے والی ہے۔ یہ اعلان جہاں تک گیا، اس نے مقناطیس کا کام کیا۔ ہر وہ شخص بھاگا چلا آیا جس کے والدین اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس کی تربیت کا فریضہ درست طور پر انجام نہ دے سکے۔

قاسم علی شاہ صاحب کی تصاویر میں تھا ہی کیا کہ ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا جاتا۔ معمولی نوعیت کی عام سی تصاویر تھیں لیکن ان پر خبث باطن کے دیوان لکھ دیے گئے۔ فرض کیجیے کل کو کسی شریف آدمی کی فوٹو شاپ تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دی جائیں۔ کیا سوشل میڈیا ان تصاویر کی حقیقت جانے بغیر اس آدمی کی عزت کا جنازہ نکال دے گا اور کیا ہم سوشل میڈیا پر اس قماش کے لوگوں کو اپنے ساتھ ایڈ رکھیں گے؟ نیچ آدمی کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ شرفاء کی تذلیل سے تسکین محسوس کرتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا اب معاشرے کا کام ہے کہ ایسے کرداروں سے کیا سلوک کرنا ہے۔ میری ناقص رائے میں ہر اس شخص کو فیس بک سے انفرینڈ یا بلاک کر دینا چاہیے جو اس طوفان بد تمیزی میں کسی بھی شکل میں بروئے کار آیا۔

قاسم علی شاہ صاحب سے میری کوئی ملاقات نہیں، نہ ہی کبھی فون پر رابطہ ہوا لیکن جس طرح ان کو وضاحتی ویڈیو جاری کرنا پڑی اس نے لہو رلا دیا۔ ان تصاویر میں تھا کہ وضاحتی ویڈیو جاری کرنا پڑی؟ ہم ایک معاشرے میں رہ رہے ہیں یا پاگل خانے میں جہاں کچھ مریض ہر چوراہے پر شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کو کھڑے ہیں اور لوگوں کو قدم قدم پر وضاحتیں پیش کرنا پڑ رہی ہیں؟

سوشل میڈیا کو ایک ضابطہ کار کے تحت لانا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ اس کام کے لیے نئے قوانین وضع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ عمل درآمد کے عمومی مسائل موجود ہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ قوانین خاصے سخت ہیں۔ ملک میں موجود قانون کا نصف بھی نافذ کر دیا جائے تو آدھا سوشل میڈیا جیل میں پڑا ہو گا۔ اختلاف رائے اور تفنن طبع اور چیز ہے لیکن کسی کی باقاعدہ ایک مہم کی صورت میں لذت حاصل کرنا ایک بیمار رویہ ہے۔ اس رویے کی یہیں حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو اس معاشرے میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

تا ہم سماجی رد عمل بھی بہت ضروری ہے۔ اس قماش کے لوگوں کو سوشل میڈیا پر شریک مجلس رکھنا ایک طرف سے شریک جرم ہونا ہے۔ میں ہر اس شخص کو سوشل میڈیا پر بلاک کر رہا ہوں جس نے اس غیر اخلاقی مہم میں حصہ ڈالا، آپ اپنا فیصلہ خود کر لیجیے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ آپ کا یہ فیصلہ آپ کے آنے والے کل کی صورت گری کرے گا۔

یہ فیصلہ آپ نے آج کرنا ہے کہ آپ زومبیوں کے رحم و کرم پر رہنا چاہتے ہیں یا ایک مہذب معاشرے میں۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan