تاحیات نا اہلی اورسپریم کورٹ بار، چند سوالات
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اراکین اسمبلی کی تاحیات نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔ اگر چہ ایسے معاملات میں متن سے زیادہ حاشیہ اہم ہوتا ہے اور سطور سے زیادہ بین السطور کو پڑھا جانا چاہیے لیکن بار کے بزرگوں کے احترام میں ہم حاشیے اور بین السطور کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں اور خود کو صرف متن اور سطور تک محدود رکھتے ہیں۔ معاملہ مگر یہ ہے کہ اس احتیاط، وضع اور احترام کے باوجود چند سوالات ہیں جو مسلسل دستک دیے جا رہے ہیں۔ ان سوالات کا کسی سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی ان سوالات کو کسی پر تنقید سمجھا جائے۔ یہ ایک ایسے طالب علم کے سوالات ہیں جو اپنی کم علمی کی وجہ سے چیزوں کو سمجھنے میں مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اور اہل علم سے رہنمائی کے لیے درخواست گزار ہے۔
اس وقت پاکستان میں دو سیاست دان تا حیات نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں۔ ایک میاں نواز شریف صاحب ا ور دوسرے جہانگیر ترین صاحب۔ یہ دونوں شخصیات ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ میاں نواز شریف تو اپنی جماعت کے سربراہ رہے اور عملا آج بھی ہیں۔ اسی طرح جہانگیرترین صاحب کی تحریک انصاف میں حیثیت اتنی غیر معمولی ہے کہ ان کے آگے وجیہہ الدین احمد اور حامد خان جیسی شخصیات کا چراغ بھی پارٹی نے گل کر دیا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ملک کی ان دو بڑی جماعتوں نے ایسی درخواست خود کیوں نہیں دائر کی؟
کسی شخصیت کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ ایک اصول کی بنیاد پر یہ درخواست کوئی سیاسی جماعت بھی تو دائر کر سکتی تھی۔ معاملہ بھی بنیادی طور پر سیاسی تھا کہ اہل سیاست سے متعلق تھا۔ آئین کے کسی آرٹیکل کی تشریح مقصود تھی یا آرٹیکل62 کے تحت تا حیات نا اہلی کی جورسپروڈنس میں اصلاح اور ارتقاء کی ضرورت تھی تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اس سے بے نیاز کیوں رہیں؟ جس قانونی نکتے نے سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کو پریشان کر دیا وہ نکتہ خودان سیاسی جماعتوں کو پریشان کیوں نہ کر سکا؟
حتی کہ یہ چیز اہل سیاست پارلیمان میں بھی زیر بحث نہ لا سکے کہ آرٹیکل 62 کے تحت ہونے والی نااہلی کی مدت کیا ہونی چاہیے، نہ اس پر کوئی بل آ سکا نہ کوئی قانون سازی ہو سکی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مل کرآئین میں اٹھارہویں ترمیم کی لیکن وہ اس نکتے پر غور کرنے کو بھی تیار نہ ہو سکیں کہ آرٹیکل 62 اور 63 کس حد تک قابل عمل ہیں اور کیا ان میں موجود مبہم اصطلاحات کا ابہام دور کرنے کی کوئی ضرورت ہے یا نہیں اور کیا یہ اصطلاحات مبہم ہیں بھی سہی کہ نہیں۔ دوسرا سوال گویا یہ ہوا کہ خود اہل سیاست جس بات سے بے نیاز رہے سپریم کورٹ بار اس کے بارے میں اتنی حساس کیوں ہو گئی؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ آئین پاکستان میں آرٹیکل 62 کو شامل ہوئے سال نہیں عشرے ہو گئے۔ اس سارے دورانیے میں سپریم کورٹ بار کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ قانون مناسب ہے یا غیر مناسب؟ اور اس کے تحت ہونے والی نا اہلی چند مہینوں اور سالوں کی ہے یا تاحیات؟
اس کا ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ اس قانون کا اطلاق اب ہوا، اس کے تحت سزائیں اب ہوئیں اور نااہلی کی مدت کو تاحیات اب قرار دیا گیا، اس لیے اس درخواست کی ضرورت بھی اب پڑی۔ چوتھا سوال یعنی یہ ہوا کہ نوا ز شریف صاحب تو جولائی 2017 کو نا اہل ہوئے۔
اپریل 2018 میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے یہ طے کیا کہ آرٹیکل 62 کے تحت ہونے والی نا اہلی تاحیات ہو گی۔ 2018 گزر گیا، 2019 گزر گیا، 2020 بھی گزر گیا، 2021 بھی گزر گیا۔ ان سالوں میں سپریم کورٹ بار نے تاحیات نا اہلی کے معاملے کو عدالت میں کیوں نہ اٹھایا؟
پانچواں سوال یہ ہے کہ یہ کارِ خیر اب ہی کیوں کرنا پڑا، جب ایازصادق دعوت عام دے رہے ہیں کہ میری مسکراہٹ دیکھ لو اندازہ ہو جائے گا کہ بہت کچھ بدلنے والا ہے؟ سپریم کورٹ بار کا بے حد احترام ہے۔
سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے اور کسی کو تاحیات نا اہل قرار دینا بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بار کے خیال میں یہ ووٹر کے بنیادی حقوق کی بھی نفی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ موقف درست ہو۔ ایک طالب علم کے طور پر میں اس موقف کو معقول موقف سمجھتا ہوں۔ سوال البتہ ترجیحات کا ہے۔
ملک کی سب سے بڑی اور محترم بار ایسوسی ایشن کو اگر بنیادی حقوق کے لیے متحرک ہونا ہی تھا تو اس کی ترجیح سیاسی اشرافیہ ہونی چاہیے یا عام آدمی کو؟ یہاں تو عالم یہ ہے کہ ابھی تک آئین پاکستان میں صحت کو بنیادی انسانی حق ہی نہیں سمجھا گیا۔ جہاں سڑک پر معصوم بچوں کے سامنے والدین گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں، جیل میں پڑا ملزم طاقت کے بل بوتے پر گواہوں کو ہی نہیں مدعی کو بھی یوں رام کرتا ہے کہ وہ اس ملزم کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے جسکے ظلم کی ویڈیو ایک زمانہ دیکھ چکا ہوتاہے۔
جہاں لوگ مقدموں سے بری ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بری ہونے والوں کو پھانسی پائے سالوں گزر چکے۔ سپریم کورٹ بار بنیادی حقوق کا علم اٹھا ہی رہی تھی تو عام آدمی کی بے بسی کا خیال کرتے ہوئے نظام قانون میں اصلاح کی بات کرتی۔ بنیادی حقوق کے پرچم تلے بھی اگر سیاسی اشرافیہ ہی کا مقدمہ لڑنا ہے تو آپ پاندان اٹھائیں یا نہ اٹھائیں ہم باز آئے محبت سے۔
اسی حقوق انسانی کے عنوان سے یہی درخواست کسی سیاسی جماعت نے دائر کی ہوتی تو وہ ایک الگ معاملہ ہوتا۔ کیونکہ ہر کسی کو اپنے معاملات میں انصاف کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اگر رضاکارانہ طور پر بنیادی حقوق کے دفاع کے لیے میدان میں اتری ہے تو پھر اس رضاکارانہ عمل میں ترجیحات کے باب میں یہ سوال ضرور پیدا ہو گا کہ الف، کی بجائے نون، سے آغاز کیوں کیا جا رہا ہے؟ (یہاں نون سے مراد ن لیگ ہر گز نہیں ہے)
خلق خدا اب ہشیار ہو چکی ہے۔ کہیں کوئی شاعر مطلع کہتا ہے تو مخلوق مقطع خود ہی سمجھ جاتی ہے شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔ بلکہ وہ اب مشاعرے کی شان نزول بھی جان لیتی ہے۔ میرے جیسا طالب علم مگر نہ مقطع کی بات کرے گا نہ شان نزول کی۔ وہ متن تک ہی محدود رہے گا، حاشیے کی طرف نہیں جائے گا اور وہ سطور ہی پڑھے گا، بین السطور پڑھنے کی جسارت نہیں کرے گا۔
ابھی فائر ٹریل سے اترا ہوں، ایک محترمہ نے ہینڈ فری لگایا ہوا ہے مگرنصرت فتح علی خان کی آواز پوری پگڈنڈی پر گونج رہی ہے: سوچتا ہوں کہ وہ کتنے معصوم تھے، کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے۔