سیاسی جماعتوں کے منشور کہاں ہیں؟
انتخابات سر پر ہیں۔ اس وقت اہل سیاست و صحافت کا مرغوب موضوع یہی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور کہاں ہیں؟ انتخابات کی صف بندی کیا منشور کے بغیر ہوگی؟ کیا ہمارے عصبیتوں میں لپٹے نیم خواندہ معاشرے میں انتخابی منشور کی کوئی اہمیت بھی ہے یا نہیں؟ کیا یہ محض ایک قانونی ضرورت ہے یا سیاسی بیانیے میں اس کی کوئی اہمیت و افادیت بھی ہے؟ انتخابات کے لیے جلسے بھی جاری ہیں اور جوڑ توڑ بھی ہو رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بھی بن اور ٹوٹ رہے ہیں لیکن کیسا عجب تماشا ہے کہ یہ سب کچھ کسی منشور کے بغیر ہو رہا ہے۔ نہ سیاسی صف بندی کے تعین میں کوئی جماعت دوسری جماعت سے اس کا منشور مانگ رہی ہے نہ ہی وطن عزیز میں کبھی عوام نے منشور پڑھ کر کسی کو ووٹ دیا۔ یہاں ووٹ اندھی عقیدت اور اندھی نفرت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں یا گلی محلے کے ان کاموں کے عوض دیے جاتے ہیں جو مقامی حکومتوں کا کام ہے اور عوامی حق، مگر بھیک کی صورت ملتا ہے اور اس کا تاوان ووٹ کی شکل میں مانگا جاتا ہے۔
چونکہ انتخابی قوانین میں منشور کی ضرورت ہے اس لیے ایک رسمی کارروائی پوری کر لی جاتی ہے لیکن کسی جماعت کا منشور قومی بیانیے میں کہیں زیر بحث ہی نہیں آتا۔ جس نے جس جماعت کو ووٹ دینا ہے، اسی کو دینا ہے۔ اس کی اب جانے بلا کہ منشور کیا ہوتا ہے یا کس جماعت نے منشور میں کیا لکھا ہے۔ ایک خاندانی جاگیر کا سا نظام ہے جہاں مزارعین کی انجمن کارکنان ہے۔ وہ منشور وغیرہ کے تکلفات سے بے نیاز ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ا س بندوبست کے ساتھ یہاں جمہوری رویے فروغ پا سکتے ہیں؟
سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران ایک انتخابی منشور جاری کرتی ہیں۔ یہ گویا ان جماعتوں کی جانب سے عوام کے ساتھ کیا گیا وعدہ ہوتا ہے کہ ہم جیت کر اقتدار میں آئے تو ہماری پالیسیوں اور اہداف کا تعین اس منشور کی روشنی میں ہوگا۔ اقتدار میں آ کر بھلے اس منشور پر مکمل عمل درآمد ممکن نہ ہو لیکن کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ پالیسیوں کی سمت وہی ہو جو منشور میں بیان کی گئی ہے۔
ہمارا انتخابی قانون اس معاملے میں بھی لاتعلق ہے۔ اسے کوئی پرواہ نہیں کہ انتخابی منشور میں کتنے جھوٹ بولے گئے اور کتنی مبالغہ آمیزی کی گئی۔ اسے اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ سیاسی جماعت انتخابات جیت کر اپنے انتخابی منشور پر کتنا عمل کرتی ہے۔ وہ اس سے بھی بے نیاز ہے کہ اقتدار میں آ کر اس منشور کے مطابق کام کیا جاتا ہے یا اس کے برعکس پالیسی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یعنی جس ووٹر کو ابھی امیدوار کے نام پڑھ کر ووٹ دینے کے قابل نہیں سمجھا جاتا اور اس کی بجائے انتخابی نشان کی سہولت دی جاتی ہے، اسی ووٹر کو سیاسی جماعتوں کے منشور اور انتخابی وعدوں کی دلدل میں بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔
انتخابی قانون کے تحت کسی کے پاس کوئی فورم نہیں جہاں وہ شکایت کر سکے کہ فلاں جماعت نے انتخابات میں اپنے منشور میں فلاں وعدہ کرکے ووٹ لیا تھا لیکن اب وہ اس وعدہ کے بر عکس پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ نہ ہی کوئی ایسا اصول کسی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے کہ انتخابی منشور مینڈیٹ کی بنیاد ہوتا ہے اور اس سے یکسر انحراف مینڈیٹ کو ناقص کر دیتا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ منشور محض ایک قانونی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ اسے کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ نہ سیاسی جماعتیں، نہ امیدوار اور نہ ہی الیکشن کمیشن۔ انتخابات کسی سنجیدہ نکتے پر نہیں لڑے جاتے۔ انتخابی عمل میں یہی کافی ہے کہ ردیف قافیے ملا کر اخلاقیات کو پامال کر دیا جائے اور حریفوں کی ہجو کہی جاتی رہے۔ پوری سیاست دوسروں کی خامیوں کے ابلاغ پر کھڑی ہے، اپنی خوبی اور اپنا پروگرام اب ثانوی اور غیر اہم ہو چکا ہے۔
بہت سے ممالک میں یہ رسم ہے کہ سیاسی رہنما انتخابات سے پہلے ایک ساتھ عوام کے سامنے آتے ہیں اور ماہرین کا پینل ان سے سوال کرتا ہے کہ اہم قومی معاملات پر ان کی پالیسی کیا ہے اور وہ ایک دوسرے سے کتنی مختلف اور کتنی بہتر ہے۔ اس مشق سے ووٹر کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے کہ اس کی ترجیح کون ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی رسم وجودمیں نہیں آ سکی۔ یہاں سیاسی اکابرین اپنے حصے کے صحافی کو بلا کر انٹر ویو دیتے ہیں جو انٹر ویو کم اور انجمن ستائش باہمی زیادہ ہوتا ہے۔
انتخابی قوانین کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 200 میں سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اخلاقیات اور امن عامہ کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھائیں گی۔ یہ سوال اب الیکشن کمیشن ہی سے پوچھا جانا چاہیے کہ اہل سیاست ایک دوسرے کے بارے میں سیاسی جلسوں اور ٹاک شوز میں جو گفتگو کرتے ہیں وہ (public morality) کے اصولوں سے کس حد تک ہم آہنگ ہے۔ امن عامہ کی تو بات ہی کیا کرنی، یہاں ہر سیاسی جماعت کو گویا یہ حق مل چکا ہے کہ جب جہاں چاہے جلسے جلوس اور دھرنوں کی شکل میں شہری زندگی معطل کرکے رکھ دے، سڑکیں بند کر دے اور نظام زندگی مفلوج کر دے۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ اہل سیاست اسے جمہوری حق قرار دیتے ہیں اور انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ یہ انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ انتخابی قوانین کو بھی اس امر کی کوئی پرواہ نہیں۔
سیاسی جماعتوں کو چند افراد اور گھرانوں کی گرفت سے نکال کر باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی مثال لے لیجیے۔ ڈیموکریٹ پارٹی اور ری پبلکن پارٹی وہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ امریکی سیاست ساری دنیا میں موضوع گفتگو رہتی ہے لیکن ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے نام شاید ہی کسی کو معلوم ہوں۔ کیونکہ ان کی پہچان کسی فرد سے مشروط نہیں، یہ بطور ادارہ موجود اور فعال ہیں۔
ایک حسرت سی وجود سے لپٹی ہے کہ کبھی تو ہمارے ہاں بھی عام انتخابات شخصیت پرستی اور نفرت وعقیدت کی بجائے پالیسی کی بنیاد پر ہوں اور لوگ اپنے اپنے حصے کے رہنما کو ٹارزن اور سپر مین بنانے کی بجائے اس بات پر بحث کر رہے ہوں کہ کس جماعت کا انتخابی منشور دوسری جماعت سے کتنا بہتر یا کمتر ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہوں کہ کس جماعت کی تعلیمی پالیسی بہتر ہے، کس کی صحت کی پالیسی اچھی ہے، کس نے روزگار کے حوالے سے کوئی اچھا پروگرام دیا ہے، کس کے پاس معیشت کی بحالی کا کوئی پروگرام ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ نیز یہ کہ یہ سب کچھ خیالی باتیں ہیں یا یہ کسی درجے میں قابل عمل بھی ہیں۔
جب سیاسی بیانیہ شخصیت پرستی، نفرت اور عقیدت کی بجائے اصول کی بنیاد پرمرتب ہونے لگے گا تو پھر انجمن مزارعین کی جگہ باشعور کارکنان اور با شعور ووٹر لیں گے۔ وہی حقیقی جمہوریت ہوگی۔