سانحہ مچھ، ایک تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے
سانحہ مچھ۔۔۔۔ ایک تو آپ نے گھبرانا نہیں ہےہزارہ کے مقتولین کے لاشے سڑک پر رکھے ہیں اور لواحقین کی آنکھوں میں اترا درد سراپا سوال ہے کہ حکومت کے پاس پرسہ دینے کے لیے کوئی رجل رشید نہیں تھا، جو شیخ رشید صاحب کو بھیج دیا؟ اس موقع پر اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ان سے ناموزوں شخص شاید ہی کوئی ہو سکے۔ درست کہ اتفاقات زمانہ نے انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ رکھا ہے لیکن انسانی جذبات کابینہ کا قلمدان نہیں ہوتے۔ اپنی افتاد طبع کے سارے حوالوں سے شیخ رشید اس فریضے کی ادائیگی کے لیے غیر موزوں ترین شخص تھے۔ معاف کیجیے گا، یہ پرسہ نہیں یہ ان آنسو وں کی توہین ہے جو پلکوں سے ٹوٹ کر گرے پڑے ہیں۔
یہ ہماری صدیوں کی روایات میں سے ہے کہ جب کہیں پڑوس میں کوئی بڑا حادثہ ہو جائے اور تعزیت کے لیے سب نہ جا سکیں تو گھر کا سب سے نجیب اور معتبر آدمی بھیجا جاتا ہے۔ گائوں کی ثقافت میں اسے " بڑی موت" کہتے ہیں۔ بڑی موت کا تعلق دولت سے نہیں، غم کے حجم سے ہوتا ہے۔ عین جوانی میں کوئی چلا جائے، بوڑھے والدین کا اکلوتا جوان بیٹا مر جائے، کوئی باپ معصوم بچے چھوڑ کر مر جائے تو اپنے غم کے غیر معمولی حجم کے تناسب سے اسے بڑی موت کہا جاتا ہے۔ بڑی موت پر گھر کے چھوٹوں کو نہیں، گھر کے بڑوں کو بھیجا جاتا ہے۔ ساری مصروفیات ترک کر دی جاتی ہیں۔
حساب غم کی کوئی سی میزان اٹھا لیجیے، ہزارہ کے لاشے بہت بڑا غم ہیں۔ سوال وہی ہے: کیا اہل اقتدار کی صف میں کوئی رجل رشید نہ تھا جو شیخ رشید صاحب کو بھیج دیا۔ عربوں میں کہا جاتا ہے: لکل فن رجال۔ ہر کام کے لیے اس کا کوئی موزوں آدمی ہوتا ہے۔ کیا اتنے بڑے حادثے پر، پرسہ دینے کے لیے حکومت کے پاس شیخ رشید صاحب ہی بچے تھے؟ جناب وزیر اعظم بہت مصروف تھے تو عارف علوی صاحب ہی کو روانہ کر دیا گیا ہوتا، جو ایوان صدر میں بیٹھ بیٹھ کر اس قدر اکتاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں کہ جب کرنے کو اور کچھ نہیں ہوتا تو زندہ لوگوں کی تعزیت کا ٹویٹ کر کے خود کو مصروف رکھتے ہیں۔
گھر میں اتنا برا حادثہ ہوا ہے۔ لاشے سڑک پر رکھے ہیں۔ لیکن وزیر اعلی کی بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں حادثہ کس علاقے میں ہوا۔ وفاق سے بلوچستان تک حکومت " ٹویٹو ٹویٹ" ہوئی پڑی ہے۔ چند سال پہلے ایسا ہی حادثہ ہوا تھا تو جناب عارف علوی نے ٹویٹ میں گورنر راج لگانے کی تجویز دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام بطور گورنر تجویز کیا تھا۔ حریف کے نامہ اعمال کی سیاہی جب اپنی زلف میں اتری ہے تو نہ ٹویٹ ہے، نہ گورنر راج کا مشورہ اور نہ ہی کسی مجوزہ گورنر کا نام بتایا جا رہا ہے۔" اقوال زریں لیگ" میں ایسی خاموشی ہے جیسی آندھیوں والی بارش کے بعد جنگل میں ہوتی ہے۔
لوگ عمران خان سے مطالبہ کر ہے ہیں کہ بلوچستان تشریف لے جائیے، وہاں مقتولین کے لاشے اس یخ بستہ موسم میں سڑک پر رکھے ہیں۔ رومان کا یہی المیہ ہوتا ہے کہ وہ سامنے کی حقیقت کو نہیں دیکھ پاتا۔ ہماری خوش گمانی سے حقائق نہیں بد ل سکتے اور حقیقت یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم کے بارے میں یہ تاثر روز کی بنیاد پر پختہ ہو رہا ہے کہ وہ ذات کے گنبد کے اسیر ہیں۔ ان کا خیال ہے یہ دنیا صرف ان سے محبت کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور وہ کسی انسانی رشتے، جذبات اور احساس کے مکلف نہیں۔ وہ اس سے بے نیاز ہیں۔ وہ صرف ایک ہیرو ہیں۔ تالیاں بجتی رہیں اور لوگ آٹو گراف لیتے رہیں۔ ہیرو تو ایک پتھر کا صنم ہوتا ہے۔ اس کی پلکیں نم نہیں ہوتیں اور اس کے دل میں درد نہیں ہوتا۔
اہل اقتدار کی بے نیازی کسی المیے سے کم نہیں۔ تاہم وزیر اعظم سے یہ مطالبہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں کہ جائیں اور دکھی لوگوں کا غم بانٹیں۔ یہ اس نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا ایک مظہر ہے جس سے یہ سماج گزر رہا ہے۔ معاشرے کو معلوم ہے سانحہ ساہیوال کے وقت جو فلائیٹ وزیر اعظم کو لے کر قطر گئی تھی وہ واپسی کا راستہ بھول گئی ہے۔ اس لیے اب انصاف کا مطالبہ ہوتا ہی نہیں۔ لوگ اب اسی پر خوش ہیں جناب وزیر اعظم جا کر تعزیت ہی کر لیں۔ تسلی کے دو بول اور جھوٹے وعدے ہی ان ستم کے ماروں کے لیے اب کسی مسیحائی سے کم نہیں۔ یہ وہ کم سے کم مطالبہ ہے ستم گزیدہ قوم جو اپنے حاکم سے کر سکتی ہے۔ افسوس حاکم وقت رعایا کی اتنی سی بات بھی سننے کا روادار نہیں۔
حاکم وقت کے سینے میں دل ہو تو سانحہ کے پہلے مرحلے میں ہی وہ دل ہتھیلی پہ رکھے مظلومین کو گلے لگانے کھچا چلا جاتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی طرح۔ پیار بھیک میں نہیں لیا جاتا اور پرسہ مطالبات کر کے نہیں کرایا جاتا۔ یہ احساس کی دولت ہے۔ جس دل میں یہ متاع موجود ہو وہ پہلے مرحلے میں ہی تڑپ اٹھتا ہے۔ لورز کلب کے مطالبات پر تعزیت نہیں ہوتی، وہ صرف سیاست ہوتی ہے۔ لورز کلب بھی صرف شعر کا وزن پورا کرنا چاہتا ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے وزیر اعظم چلے جائیں، دبائو کچھ کم ہو جائے اورلاشوں کی تدفین ہو جائے۔ اس کے بعد پورا قافلہ انقلاب قطر چلا جائے گا۔ معلوم نہیں کس سیانے نے انہیں بتا رکھا ہے کہ دوسروں کے عیب آپ کو سرخرو کر سکتے ہیں اس لیے آپ نے خود کچھ نہیں کرنا، بس دوسروں کی ہجو کہتے جانا ہے۔
نیا پاکستان "ٹویٹو ٹویٹ" ہوا پڑا ہے۔ آن لائن مشقتی بروئے کار آتے ہیں، ٹرینڈ چلتا ہے، چند گھنٹوں بعد وہ ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے اور حکومت کھڑے کھڑے سرخرو ہو جاتی ہے۔ چند اقوال زیں ہیں جو دو کے پہاڑے کی طرح صبح شام دہرائے جاتے ہیں: خزانہ خالی ہے، اپوزیشن چور ہے، چھوڑنا ہم نے کسی کو نہیں اور آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔