Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Safeeron Se Khitab Ke Baad

Safeeron Se Khitab Ke Baad

سفیروں سے خطاب کے بعد

جناب وزیر اعظم نے دنیا میں تعینات پاکستانی سفیروں سے جو خطاب کیا ہے یہ اگر اپنی نوعیت کا پہلا خطاب ہوتا تو اس پر داد سخن دی جاتی۔ لیکن ڈھائی سال میں اس قوم کی سماعتوں پر ایسے بہت سے خطابات بیت چکے، اس لیے یہ سوال اب بالکل غیر اہم ہے کہ اس خطاب کے مندرجات کتنے حسین اور سہانے تھے، سوال یہ ہے کہ کیا اس خطابات کے مندرجات کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی موجود ہے یا خطاب برائے خطاب ہی مقصود تھا؟

خطاب تو جناب وزیر اعظم ہمیشہ سے اچھے کرتے ہیں۔ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے قوم سے جو پہلا خطاب کیا تھا، اس نے آنکھیں نم کر دی تھیں۔ سوشل میڈیا پر میں نے تبصرہ کیا تھا کہ " آج تک وزرائے اعظم نے صرف خطابات ہی کیے، دل کی باتیں تو صرف آج عمران خان نے کی ہیں"۔ پھر یوں ہوا کہ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا اور عمران خان دھیرے دھیرے کھلتے گئے۔ اب تو یہ بات زبان زد عام ہے کہ جناب وزیر اعظم کی اچھی اچھی اور پیاری پیاری باتیں محض برائے وزن بیت ہوتی ہیں۔ یہ خطابات اقوال زریں کا وہ مجموعہ بن چکے ہیں، جن کا کوئی معنی ہے نہ کوئی اعتبار۔ یہ تقریریں اس گھٹا کی مانند ہیں، جس کے برسنے کے بعد زمین میں کہیں کوئی نمی نہیں ہوتی۔

تقریر کتنی ہی حسین اور خطاب کتنا ہی جلالی کیوں نہ ہو اس کے بعد اگر عمل نہیں ہوتا تو اقوال زریں کا یہ مجموعہ ایک بے سود مشق کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان صاحب کی تقاریر کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ تقریر کرکے بھول جاتے ہیں اور اہل دربار اسی تقریر ہی کو کامیابی کا پرچم بنا کر لہرانا شروع کر دیتے ہیں۔ ابلاغ کی دنیا میں جارحانہ حکمت عملی کے باب میں شاید یہ ایک طے شدہ پالیسی ہے کہ اچھی اچھی باتیں کرو اور سوشل میڈیا پر ڈال دو، داد سخن طلب کرو اور اگلی کسی تقریر کی تیاری شروع کر دو۔

احتساب سے لے کر اخلاقی برتری اور قوم کی تعمیر سے لے کر کشمیر تک جتنی اچھی تقاریر جناب عمران خان نے کی ہیں، شاید ہی کسی نے کی ہوں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان پر عمل کیا ہوا اور کتنا ہوا۔ کشمیر کے تو آپ سفیر تھے۔ بہت اچھی تقریر میں فرمایا تھا" قوم کو میں لائحہ عمل دوں گا، میں خود قیادت کروں گا، میں اس مسئلے کا سفیر ہوں"۔ تقریر بھی ہوگئی اور داد بھی مل گئی لیکن کشمیر کی سوگوار وادی پوچھتی ہے کہ ہمارا سفیر کہاں ہے؟ تب سے اب تک کشمیر پر سفیر صاحب اور ان کی حکومت نے کیا کارکردگی دکھائی ہے؟

جارحانہ سفارتی مہم تو اب خواب ہوا، یہاں تو اتنا بھی نہ ہو سکا کہ حریت کی بیمار قیادت کے لیے جو وبا کے دنوں میں بے یارو مدد گار بھارتی جیلوں میں پڑی ہے، انسانی حقوق کا مقدمہ ہی کھڑا کر دیا جاتا۔ سید علی گیلانی کے دست راست اشرف صحرائی علاج نہ ہونے کی وجہ سے قید میں شہید ہو گئے، سفیر صاحب اور ان کی سفارت کاری کہاں ہے؟ خود سید علی گیلانی شدید علیل ہیں، یاسین ملک صاحب کی حالت مخدوش ہے۔ دکھوں کی ایک مالا ہے اور کشمیر ہے لیکن وزیر اعظم ایک خطاب فرما کر ایسے سرخرو ہوئے کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

نہ کوئی تسلسل نہ مستقل مزاجی، نہ کوئی ویژن نہ کوئی منصوبہ بندی۔ ترک تازی کی کہانی بس اتنی ہے کہ ہر مہینے ایک نیا مسئلہ اور ایک نیا خطاب اور اس کے بعد اہل دربار کے قصیدے۔ واہ صاحب واہ، پہلی بار صاحب پہلی بار۔ اس دور حکومت میں شاید ہی کوئی کام ہو جو دوسری یا تیسری بار ہو رہا ہے، یہاں جو بھی ہو رہا ہے پہلی بار ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے تو لوگ غاروں میں رہتے تھے، تبدیلی تو اب آئی ہے۔ حیرت ہوتی ہے لوگ کس سادگی سے خطابات کے مندرجات پر مضامین باندھتے ہیں۔

سفیروں سے خطاب ہی کو لے لیجیے۔ اقوال زریں بہت اچھے سہی لیکن ان کی افادیت کیا ہے؟ مقصود اگر یہ تھا کہ خطاب فرما دیا جائے تا کہ عوام دوستی کے باب میں سند رہے تو خطاب فرما دیا گیا اور قصیدہ گو " اٹھ اٹھ کر آ رہے ہیں"۔ لیکن سوال یہ ہے اس خطاب کے ساتھ کیا کوئی واضح پالیسی بھی ہے یا خطاب کے ذریعے یہ مورچہ فتح ہوا، اب اگلے خطاب کی تیاری ہو رہی ہے؟ ایک نیا خطاب، ایک نئی کارروائی؟ اصلاح احوال سنجیدہ منصوبہ بندی مانگتی ہے۔ خطاب سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ خطیب کو دادو تحسین مل جائے کہ واہ صاحب واہ کیا غریب پروری والی بات کی ہے لیکن خطاب کے اقوال زریں حقیقت بنانے کے لیے حکمت عملی درکار ہوتی ہے۔ وہ حکمت عملی کہاں ہے؟

سفیروں کو آپ نے کشمیر پر کیا پلان دیا تھا؟ معیشت اور مہنگائی کی طرح کشمیر کے مسئلے کو بھی " آپ خود دیکھ رہے تھے" تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس مسئلے پر ہمارے سفارت خانوں کی کارکردگی کیا رہی؟ کیا حکومت کی جانب سے سفارت خانوں کو کوئی واضح ایکشن پلان دیا گیا کہ دنیا میں کشمیر کا مسئلہ اور وہاں حقوق انسانی کی پامالی کو کس طرح موضوع بنانا ہے؟ کسی سفارت خانے میں اس ضمن میں کوئی سرگرمی ہوئی ہو تو بتائیے؟

اب چونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا معاملہ چل رہا ہے اس لیے انہیں بتانے کے لیے کہ جناب وزیر اعظم کس طرح آپ کے دکھوں کا مداواکر رہے ہیں، ایک عدد خطاب فرما دیا گیا ہے، جو سیاسی ضرورت تو پوری کر سکتا ہے، انتظامی طور پر اصلاح احوال نہیں کر سکتا۔ اصلاح احوال سب کو لائن حاضر کرکے تقریر فرمانے سے ہو سکتی، تو پورے ملک کی قسمت بدل چکی ہوتی۔ لیکن اصلاح احوال ایک ٹھوس منصوبہ بندی مانگتی ہے۔

وہ منصوبہ بندی کہاں ہے؟ سفارت خانوں کی کارکردگی کو جانچنے، پرکھنے کا نظام کہاں ہے؟ سفیروں کی تعیناتی کا طریقہ کار اور اہلیت کیا ہے؟ سفارت خانوں کو عوام دوست بنانے کے لیے نیا پروگرام دیا گیا ہے؟ کسی حوالے سے کوئی منصوبہ بندی موجود ہے یا چار ماہ بعد قوم کو بتایا جائے گا کہ مجھے تو سفیر بھی اچھے نہیں ملے۔ میرے علاوہ کوئی بھی اچھا نہیں۔ بس میں ہی ہوں۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad