صدر محترم کا ٹویٹ، چند اہم سوالات
صدر محترم جناب عارف علوی کا ٹویٹ پڑھا تو منیر نیازی یادآ گئے:
پھر ایک دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
معلوم یہ ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کا معاملہ بھی منیر نیازی جیسا ہے، ایک دریا کے پار اترتے ہیں تو دوسرے دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران دامن سے لپٹ چکا ہو تا ہے۔ معلوم نہیں یہ سب اتفاق ہے یا اسے اہتمام قرار دیا جائے۔ اب صدر محترم کے ٹویٹ سے جو بحران پیدا ہوا ہے، اس کی سنگینی خاصی پریشان کن ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر صرف قانون کی روشنی میں صدر محترم کے موقف کا جائزہ لیا جائے۔
جناب عارف علوی کے ٹویٹ کے اہم نکات کی تلخیص کی جائے تو ووہ یہ ہیں:
1۔ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔ کیوں کہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔
2۔ انہوں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ دستخطوں کے بغیر بلوں کو واپس بھیج دیں تا کہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔
3۔ انہوں نے عملے سے پوچھا کیا بل دستخطوں کے بغیر واپس بھجوائے جا چکے ہیں اور عملے نے ان سے جھوٹ بولاکہ بل واپس بھجوا دیے گئے۔
4۔ ان کا کہنا ہے اللہ سب جانتا ہے وہ معاف کر دے گا تاہم وہ ان لوگوں سے معافی مانگتے ہیں جو اس سے متاثر ہوں گے۔
یہ موقف کسی معمولی آدمی کا نہیں، یہ ریاست کے سربراہ کا موقف ہے۔ اس سے ایک خوفناک بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ رویہ مناسب نہیں کہ سیاسی وابستگی نفرت اور عصبیت کی بنیاد پر اس موقف کو درست مان لیا جائے یا غلط قرار دے دیا جائے۔ مناسب طرز عمل یہی ہوگا کہ جب تک چیزیں کھل کر سامنے نہیں آ جاتیں ہم اس موقف کی صحت کو آئین کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کریں کہ کیا صدر محترم درست کہہ رہے ہیں یا یہ واقعاتی شہادتیں ان کے موقف کی تائید نہیں کرتیں۔
اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلے دستور پاکستان کے آرٹیکل 75 کو دیکھنا ہوگا۔ اسی مطالعے سے پہلا سوال پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدر مملکت جب کسی بل پر دستخط نہ کریں تو اس بل کو واپس بھجوانے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ وہی طریقہ کار ہوتا ہے جو صدر محترم بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے سٹاف سے کہا ان بلوں کو واپس بھجوا دیجیے اور سٹاف نے آ کر بتا دیا کہ ہم نے بل واپس بھجوا دیے؟
آرٹیکل 75 کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 75 ون (بی) کے تحت صدر مملکت کسی بل کو اس طرح واپس بھیج ہی نہیں سکتے جیسے وہ بیان کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 75 ون (بی) میں واضح طور پر ایک طریق کار دیا گیا ہے یعنی چند شرائط عائد کی گئی ہیں اور صدر نے بل پر دستخط نہ کرنا ہوں تو واپس بھیجنے کے لیے ان شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔
پہلی شرط یہ ہے کہ صدرجب کسی بل کو واپس بھیجے تو ساتھ لکھ کر بتائے گا کہ اسے اس بل کی کس شق پر اعتراض ہے۔ یعنی اگر ایک شق پر اعتراض ہے تو اس کا بتائے گا اور اگر ایک سے زیادہ شقوں پر اعتراض ہے تو ان سب کا ذکر گا کہ اسے فلاں فلاں شق پر اعتراض ہے اور لکھے گا کہ اس کے اعتراض کی نوعیت کیا ہے۔ ساتھ ہی اگر وہ چاہے تو پارلیمان کو اس بل میں ترامیم بھی تجویز کر سکتا ہے۔
گویا آئین صدر کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ زبانی حکم پر بل واپس کر دے۔ نہ ہی صدر کے سٹاف کو یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے زبانی حکم پر بل پارلیمان کو واپس بھیج دے۔ سوال اب یہ ہے کہ جب عارف علوی صاحب نے یہ دونوں بل واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا تو کیا انہوں نے آئین کے آرٹیکل 75 پر عمل کیا؟ کیا انہوں نے بل واپس بھجواتے ہوئے وہ شرائط پوری کیں جو آئین نے ان پر عائد کی تھیں؟ کیا انہوں نے کہیں لکھ کر بتایا کہ انہین ان دونوں بلوں کی کس کس شق پر اعتراض تھا اور اس اعتراض کی نوعیت کیا تھی؟ نیز یہ کہ کیا انہوں نے ان بلوں میں کوئی ترمیم تجویز کی تھی۔
یاد رہے کہ ترمیم تجویز کرنا یا نہ کرنا صدر محترم کا اختیار تھا۔ چاہیں تو ترمیم تجویز کر دیں اور چاہیں تو نہ کریں۔ لیکن بل کی واپسی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک صدر محترم واضح طور پر لکھ کر نہ بتائیں کہ انہیں اس بل کی کس شق پر اعتراض ہے اور اس اعتراض کی نوعیت کیا ہے۔
جناب عارف علوی کے ٹویٹ میں، بادی النظر میں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف بل واپس بھجوائے جانے کا حکم دینے کی بات کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ زبانی حکم لگتا ہے۔ یہ تاثر بھی آ رہا ہے کہ انہوں نے ان دونوں بلوں کو واپس بھیجتے وقت ان کی متعلقہ شقوں کی نشاندہی نہیں کی جن پر انہیں اعتراض تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو صدر محترم غیر آئینی کام کے مرتکب ہوئے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر صدر محترم نے متعلقہ شقوں کی نشاندہی کی تھی تو اس کا ذکر ٹویٹ میں کیوں نہیں؟ ان کا ٹویٹ اس معاملے میں مبہم کیوں ہے؟ یہ کسی سیاسی جلسہ عام سے خطاب نہیں، یہ سربراہ ریاست کا ٹویٹ ہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر ان کے حکم کو پامال کیا گیا ہے تو وہ ایک بے بس شہری کے طور پر سوشل میڈیا کا سہارا کیوں لے رہے ہیں، انہوں نے اب تک متعلقہ حکام کے خلاف کاررووائی کیوں نہیں کی؟ وہ آج بھی صدر ہیں اور ایوان صدر کے متعلقہ سٹاف کے خلاف کارروائی کرنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ریاست کا سربراہ اپنے اختیارات کے استعمال کی بجائے سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ وہ معافی مانگنے اور اللہ پر چھوڑنے کی بجائے اپنا فرض کیوں نہیں ادا کر رہے؟ اگر ان کا موقف درست ہے تو ان کا سٹاف غیر آئینی کام کا مرتکب ہوا ہے، ایسے میں صدر محترم کو کارروائی کرنی چاہیے یا سوشل میڈیا پر شور مچانا چاہیے؟
اگر وہ یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ تو بے بس ہو چکے ہیں اور وہ تو عملا کوئی حکم جاری کرنے کے قابل ہی نہیں تو یہ تاثر بھی نہیں بن پا رہا، ایسا ہی ہوتا تو پھر صدر محترم ٹویٹ بھی نہ فرما رہے ہوتے۔ اگر وہ ٹویٹ فرما کر پورے ملک کی جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرنے میں آ زاد ہیں تو کیا وجہ ہے وہ متعلقہ سٹاف کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے؟
صدر صاحب کو اگر ان بلوں کی کچھ شقوں یا بہت سی شقوں پر اعتراض تھا تو یہ اعتراض اب تک سامنے کیوں نہ آ سکا؟ کوئی پریس نوٹ یا کوئی ٹویٹ؟ بہت سے راستے موجود تھے؟