راجہ ظفر الحق کہاں ہیں؟
راجہ ظفر الحق، روایت یہ ہے کہ، مسلم لیگ ن کے چیئر مین ہیں۔ اگر چہ مسلم لیگ ن میں اس کے چیئر مین کی اہمیت اور حیثیت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی خواب، میں وا مادولا، کی۔ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن برائے وزن بیت ہی سہی، ہیں تو وہ چیئر مین پاکستان مسلم لیگ ن۔ سوال اب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی اس تحریک میں راجہ ظفر الحق کہاں ہیں؟ پی ڈی ایم کے کسی جلسے میں انہوں نے کوئی خطاب نہیں کیا۔ کہیں وہ دکھائی نہیں دیے۔ کوئی بیان انہوں نے جاری نہیں فرمایا۔ کوئی پریس ٹاک نہیں کی۔ حتی کہ کوئی پریس ریلیز تک جاری نہیں کی۔ مسلم لیگ ن کا دعوی ہے کہ وہ ملک کو بچانے کے لیے تحریک چلا رہی ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ اس کا اپنا چیئر مین اس تحریک میں کیوں شامل نہیں ہے؟
مسلم لیگ ن نے دہائی دے دے کر سارے موسم غزل کر دیے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو لیکن اس کے چیئر مین صاحب دور کہیں عافیت اوڑھے دہی کے ساتھ کلچہ تناول فرما رہے ہیں۔ ن لیگ کے کارکنان سڑکوں کی دھول چھان رہے ہیں اور ان کا چیئر مین ان کی خستہ حالی سے بے پرواہ بے نیازی سے جنوری کے سنہرے دنوں کی دھوپ تاپ رہا ہے۔ اثر صہبائی ہوتے تو موتمر عالم اسلامی کی دیوار گریہ سے لپٹ کر کہتے:واہ اے مستِ ناز کیا کہنا۔
میری جستجو مجھے پاکستان مسلم لیگ ن کی ویب سائٹ پر لے گئی کہ شاید جناب چیئر مین نے اس تحریک کے حوالے سے وہاں کوئی رہنما اصول وضع کر دیے ہوں لیکن مایوسی ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے عہدیداروں کی فہرست پر نگاہ ڈالی تو منظر نامہ کچھ یوں تھا۔ نواز شریف اس جماعت کے" قائد" ہیں۔ قائد کے بعد چیئر مین کا منصب ہے۔ چیئر مین کے بعد صدر کا منصب ہے جو شہباز شریف صاحب کے پاس ہے۔ قائد محترم ملک سے باہر ہیں اور صدر مکرم جیل میں ہیں۔ بیچ میں وامادولا، معاف کیجیے، چیئر مین کا عہدہ آتا ہے لیکن وہ جون میں جھلستے جنگل کی سنسان پگڈنڈی کی طرح خاموش ہے۔ طالب علم حیرتی بنا بیٹھا ہے کہ اس منصب کی قوت گویائی کیا ہوئی۔
صدر کے بعد سیکرٹری جنرل کا عہدہ ہے جو احسن اقبال کے پاس ہے۔ اس کے بعد چار عدد سینیئر نائب صدور کے عہدے ہیں جن پرشاہد خاقان عباسی، سردار یعقوب ناصر، پیر صابر شاہ اور سرتاج عزیز فائز ہیں۔ اس کے بعد سترہ نائب صدور ہیں جن میں سے ایک مریم نواز صاحبہ بھی ہیں۔ ان سترہ نائب صدور میں سے ایک نائب صدر تو ہر جلسے میں خطاب فرما رہی ہوتی ہیں لیکن جناب چیئر مین جو منصب جلیلہ پر تن تنہا اور بلا شرکت غیرے فائز ہیں، ان کی کہیں کوئی خبر نہیں۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ سیکرٹری جنرل اور سینیئر نائب صدور کے ہوتے ہوئے نائب صدر کس حیثیت سے جلسوں سے خطاب فرما رہی ہوتی ہیں؟ اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ایک نائب صدر کو باقی کے سولہ عدد نائب صدور پر کس بنیاد پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن ہمارے معروضی حالات میں جہاں سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن چکی ہیں، اب یہ سوالات اتنے اہم نہیں رہے۔ یہ سوال البتہ بڑی معنویت رکھتا ہے کہ چیئر مین کہاں ہیں؟ وہ کیوں خاموش ہیں؟ نواز شریف کے بعد جو سب سے معتبر عہدے دار ہے اس کی یوں خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے؟
ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ راجہ صاحب شعوری طور پر پی ڈی ایم سے متفق نہ ہوں۔ انہیں زرداری صاحب کی رفاقت میں یا مولانا فضل الرحمن صاحب کی سربراہی میں بروئے کار آنے سے اتفاق نہ ہو۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں اس بات کی اجازت ہی نہ ہو کہ وہ منظر عام پر جلوہ افروز ہوں۔ جب جلسوں میں سترہ عددنائب صدور میں سے ایک نائب صدر جا رہی ہیں تو چیئر مین کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ان دونوں میں سے جو بھی وجہ ہے لمحہ فکریہ ہے اور اگر کوئی تیسری وجہ ہے تو اس طالب علم کے حاشیہ خیال سے باہر ہے۔
مسلم لیگ ن، بقول اس کے، اپنی سیاسی تحریک کی اہم ترین جدو جہد کر رہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب سے منسوب ایک بیان گردش کر رہا ہے کہ یہ وہ پہلی مبارک تحریک ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے بغیر چل رہی ہے۔ اب سوال تو اٹھے گا کہ اس تحریک میں مسلم لیگ ن کا چیئر میں کیوں نظر نہیں آ رہا۔ مسلم لیگ ن اپنے چیئر مین کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ کسی جلسے میں انہیں خطاب کا موقع دے دے یا مسلم لیگ کا چیئر مین پی ڈی ایم کی تحریک کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ وہ اس پلیٹ فارم سے جدوجہد کرے؟
ایک سیاسی جماعت کے چیئر مین کا منصب کسی درگاہ کے متولی کا منصب نہیں ہوتا کہ دنیا کے ہنگاموں سے دور، تزکیہ نفس کے مراحل سے گزر کر پاکیزگی اختیار کرتا رہے۔ یہ منصب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سیاسی حالات میں بروئے کار آیا جائے اور اپنا کردار ادا کیا جائے۔ اس کردار کی ادائیگی کی راہ میں چیئر مین کا ذوق اور فکر رکاوٹ ہے اہلیت، ہر دو صورتوں میں یہ ایک سلگتا ہوا سوال ہے۔ ذوق اورفکر رکاوٹ ہے تو سوال یہ ہے وہ اس منصب سے اب تک کیوں چمٹے ہوئے ہیں اور اہلیت کا معاملہ ہے تو سوال یہ انہیں مسلم لیگ ن اس منصب پر اب تک کیوں بٹھا رکھا ہے۔
طالب علم کا دست سوال دراز ہے۔ جناب چیئر مین رہنمائی کردیں یا مسلم لیگ ن، ہر دو صورتوں میں عین نوازش ہو گی۔