1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Parliman Ki Zaroorat Hi Kya Hai?

Parliman Ki Zaroorat Hi Kya Hai?

پارلیمان کی ضرورت ہی کیاہے؟

چار دن ہو گئے ہیں، اسلام آباد عملاً محصور ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فیصلے اگر سڑکوں پر ہی ہونے ہیں تو پارلیمان کی ضرورت ہی کیا ہے؟

عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام، ہر دو صورتوں میں فیصلہ پارلیمان کے اندر ہونا ہے۔ جوڑ توڑ بھی پارلیمان کے اندر ہونی ہے اور ووٹنگ بھی۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتیں دارالحکوت کی سڑ کوں پر طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ خلق خدا ذلیل ہو رہی ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔

موٹر وے کو اسلام آباد سے ملانے والی قریبا واحد بڑی سڑک کا نام شاہراہ کشمیر ہے جسے موجودہ حکومت کی کامیاب خاررجہ پالیسی کے سہرے کے طور پر اب شاہراہ سری نگرکہا جاتا ہے۔ یہ سڑک بند ہے۔ اس پر مظاہرین بیٹھے ہیں۔ جو لوگ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور اس کے مسائل اور معاملات کو جانتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ اس سڑک کی بندش کا مطلب کیا ہے۔ اس سڑک پر ٹریفک معطل ہونے سے پورے اسلام آباد کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد شہر کو اسلام آباد ائیر پورٹ سے ملانے والی یہ واحد سڑک ہے۔ اسلام آباد کے جی الیون سے آگے کے سیکٹرز کو باقی شہر سے جوڑنے کا وسیلہ بھی یہ ہے۔ اب یہ سڑک زیرو پوائنٹ سے بند کر دی گئی ہے۔ سمجھیے کہ آدھا شہر مفلوج اور آدھا محصور ہوا پڑا۔ جب تک رنگ روڈ نہیں بنتی یا مارگلہ نیشنل پارک کا جنگل کاٹ کر مارگلہ ایونیو نہیں بنتا تب تک اس سڑک کو اسلام آباد کی شہ رگ ہی سمجھیے۔ یہ شہ رگ اس وقت مفلوج ہے۔ عوام حیران و پریشان ہیں کہ کس سے فریاد کریں۔

اس سے تو بہتر ہوتا ڈی چوک میں احتجاج کی اجازت دے دی جاتی۔ ڈی چوک چونکہ مقتدر اشرافیہ کا مرکز ہے اس لیے ڈی چوک تو کسی کو نہیں آنے دیا گیا لیکن مظاہرین کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ شاہراہ سری نگر بلاک کر کے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ اس سے جو ذلت اور دشواری اٹھانا پڑتی ہے اس کا شکار صرف عوام ہوتے ہیں۔

اشرافیہ کا عالم یہ ہے کہ خود حفاظتی حصار میں بیٹھ جاتی ہے اور باقی کا شہر مظاہرین کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جاتا ہے۔ ریڈ زون کے تقریباً سارے راستے بند کر کے وہ مزے میں ہیں۔ اب شہر پر کیا گزر تی ہے، یہ ان کی بلا جانے۔

کل مجھے سپریم کورٹ جانا تھا۔ کچھ دستاویزات کی ضرورت تھی، جو وزارت قانون سے اٹھانا تھیں۔ پاکستان ٹیلی وژن میں ایک دوست کو کو فون کیا کہ میں آ رہا ہوں، درہ جنگلاں میں بیٹھ کر قہوہ پیتے ہیں۔ میں وہاں تک کیسے پہنچا، ذرا یہ احوال پڑھ لیجیے، اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام آباد میں لوگوں پر کیا گزر رہی ہے۔

اسلام آباد سے ذرا آگے سرینا ہوٹل ہے۔ یہاں سے ایک راستہ سپریم کورٹ اور پارلیمان کو جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ راستہ بند ہے۔ اور بند بھی کنٹینر لگا کر کیا گیا ہے تا کہ گزرنے کا کوئی امکان بھی باقی نہ رہے۔ پولیس اہلکاروں سے متبادل راستے کا پوچھا تو انہوں نے بے زاری سے کہا آگے والا راستہ کھلا ہے۔ وہاں سے چلے جائیے۔ اگلا راستہ ریڈیو پاکستان والا تھا۔ جو وزیر اعظم آفس کے سامنے جا کر نکلتا ہے۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا یہ راستہ بھی بند ہے۔ یہاں گاڑیوں کی قطار تھی اور کوئی بتانے والا نہیں تھاکہ کون سا راستہ کھلا ہے اور کدھر سے جایا جائے۔

ٹریفک جام کی اذیت سے نکلا تو اگلے راستے سے قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ یہ راستہ بلیو ایریا سے سیدھا پارلیمان کو جاتا ہے۔ جہاں کسی زمانے میں پریڈ گرائونڈ ہوا کرتا تھا۔ پارلیمانی لاجز جانا ہو تو اکثر یہی راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ راستہ بھی بند تھا اور سڑک پر کنٹینر کھڑے تھے۔ کنٹینرز کے آگے خاردار تاریں تھیں۔

یاد آیا کہ یہیں سے ایک چور راستہ بھی نکلتا ہے۔ جہاں آگے جا کر گاڑی کھڑی کر کے پیدل بھی منزل مقصود تک پہنچا جا سکتا ہے۔ حسن اہتمام کا عالم دیکھیے کہ اس کچے راستے کو بھی خار دار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔

دو چار دوستوں کو فون کیا تو معلوم ہوا اس سے آگے والا راستہ کھلا ہے۔ یہ میریٹ ہوٹل والا راستہ ہے جو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرتا ہوا پارلیمان اور سپریم کورٹ کی طرف چلا جاتا ہے۔ ایف سکس کی جانب سے میریٹ کی طرف مڑا تو یہ راستہ بھی بند کیا جا چکا تھا اور ایک کرین کی مدد سے آخری کنٹینر بھی سڑک پر رکھا جا چکا تھا۔ پولیس بیریئر سے آگے کشمیر ہائوس کی جانب ایک سروس روڈ جاتی ہے جو ساتھ ہی ندی کنارے ختم ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا کہ گاڑی ندی کنارے کھڑی کر کے آگے پیدل چلا جاتا ہوں۔ لیکن معلوم ہوا کہ حفاظتی حصار ایسی مہارت سے بنایا گیا ہے کہ یہاں سے پیدل گزرنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔

اسلام آباد میں کوئی ایسا دفتر نہیں جہاں سے راستوں کا پتا چل سکے۔ پولیس کا کوئی ایسا نمبر نہیں جہاں فون کر کے معلوم ہو سکے کہ کون کون سا راستہ کھلا ہے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کا ٹوئٹر ہینڈل اہل اقتدار کی فرماں برداری میں کارروائی ڈالتا رہتا ہے اور ان کے ٹویٹر پر ان کے اپنے حصے کے اہل دربار واہ واہ الاپتے رہتے ہیں لیکن مجال ہے یہاں سے کبھی شہریوں کی خاطر ڈھنگ سے کوئی باقاعدہ پروگرام متعارف کرایا گیا ہو۔

تھک ہار کر گاڑی میں بیٹھا تو سامنے مارگلہ کا پہاڑ تھا۔ چند قدم کے فاصلے پر ٹریل فائیو ہو تو آدمی واپس کیسے چلا جائے۔ میں نے یہ سوچ کر ٹریل فائیو کی جانب موڑ دی کہ اور تو کام ہو نہیں سکتا، تھوڑی دیر ندی کنارے کچنار کے پھولوں کی چھائوں میں جا بیٹھتا ہوں۔

ٹریل موڑ پر پہنچا تو سکیورٹی اہلکاروں کا ایک لشکر جرار کھڑا تھا۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے سڑک تو بند نہیں کی لیکن آپ بائیں جانب مڑ جائیے اور آگے سے یو ٹرن لے کر واپس آئیے۔ دو چار کلومیٹر پٹرول پھونک کر واپس پہنچا تو یہ راستہ بھی بند ہو چکا تھا۔ لیکن یہاں اتنی شفقت فرما ئی جا رہی تھی کہ تھوڑی سی تفتیش و تحقیق کے بعد گزرنے کی اجازت دے دی جاتی۔ چنانچہ بالٓاخر میں ٹریل فائیو کے راستے سے ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

آگے امن تھا اور سکون تھا۔ یہ اشرافیہ کا علاقہ تھا۔ پورا اسلام آباد ذلیل ہو رہا ہو تو ہوتا رہے، ایمبولینسیں اور سکول کی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک جام میں پھنستی ہیں تو پھنستی رہیں۔ گڈ گورننس کا خلاصہ اب صرف اتنا سا ہے کہ ریڈ زون کے کوچہ اشرافیہ کے معمولات میں خلل نہیں پڑنا چاہیے۔ باقی شہر کی اوقات ہی کیا ہے، وہاں تو رعایا بستی ہے۔

معلوم نہیں پانچ لاکھ علماء نے اس بارے میں بھی کوئی فتویٰ دیا ہے یا نہیں کہ شہر کی سڑکیں بند کر دینا کیسا عمل ہے۔ راستے کی بندش کیا ایک مستحسن قدم ہے، کیا مسافروں کو اذیت دینا ایک مناسب کام ہے اور کیا راستوں پر بیٹھ جانا بھی منکرات میں آتا ہے یا نہیں۔

معلوم نہیں پانچ لاکھ علماء کیا فرماتے ہیں بیچ اس معمولی سے مسئلے کے؟

Check Also

Khari Jharoo, Darbe Mein Billi, Sufaid Chadar

By Azhar Hussain Azmi