نگران حکومتوں کی آئینی مدت کیا ہے؟
پنجاب میں نگران حکومت کوبنے نوے دن سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نگران حکومتیں کب تک کام کر سکتی ہیں؟ ان کا دورانیہ کیا ہوگا؟ کیا آئین میں اس کے لیے کوئی مدت متعین کی گئی ہے؟ اور کیا یہ لا محدود مدت تک کام کر سکتی ہیں؟
نگران حکومتیں اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ یہ 90 دن میں الیکشن کروائیں۔ سوال اب یہ ہے کہ اگر 90دن کی مدت گزر جائے اور الیکشن نہ کروایا جا سکے تو اس صورت میں نگران حکومت کے پاس اقتدار میں رہنے کا آئینی جواز کیا ہے؟ وہ کب تک اقتدار میں رہ سکتی ہے؟ اس کے فیصلوں کی آئینی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا اس کے فیصلے قانونی طور پر جائز تصور ہوں گے یا اگلی حکومت قائم ہونے کے بعد ان کی توثیق کرنا ضروری ہوگی تا کہ ان کو قانونی تحفظ مل سکے؟
آئین اس معاملے میں خاموش ہے۔ البتہ جورسپروڈنس کی دنیا سراپا سوال ہے۔ ایک حکومت بنتی ہی اس لیے ہے کہ وہ 90 دن میں الیکشن کرائے گی۔ لیکن اگر وہ مقررہ دن میں الیکشن نہ کروا سکے تو اس کے بعد اس کے قائم رہنے کا کیا جواز ہے؟
اگر 90 دن میں الیکشن ہو جائیں تو پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ انتقال اقتدار تک یہی حکومت رہے گی۔ یعنی آئینی بندو بست اور روایت میں ایک گنجائش موجود ہے اور یہ گنجائش جان بوجھ کر دی جاتی ہے۔ تا کہ معاملات ریاست چلانے میں دشواری نہ ہو۔ کیوں کہ اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ الیکشن ہو جائیں لیکن وزیر اعظم کے انتخاب میں کچھ مسائل پیدا ہو جائیں اور اکثریت شو کرنے میں کچھ دن اوپر نیچے ہو جائیں۔ شاید اسی لیے آئین نے نگران حکومت کی مدت کا تعین نہیں کیا۔ تا کہ حسب ضرورت اگر الیکشن کے بعد انتقال اقتدار تک چند دنوں کے لیے اسی حکومت کا تسلسل ضروری ہو تو اس کی گنجائش موجود ہو۔
سیاق و سباق میں معاملہ بہت واضح ہے۔ نگران حکومت کی مدت اقتدار کا درانیہ بھلے آئین میں موجود نہیں ہے لیکن یہ بات آئین میں درج ہے کہ انتخابات نوے دن میں ہوں گے۔ گویا نگرانوں کے اقتدار کے دورانیے کے تعین کا بنیادی پیمانہ یہی ہے۔ مقررہ مدت میں الیکشن کے بعد انتقال اقتدار تک۔
سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جب کسی بھی وجہ سے مقررہ مدت میں الیکشن نہ ہو سکے۔ اس التوا کی وجوہات غلط بھی ہو سکتی ہیں اور درست بھی۔ یہ مصنوعی بھی ہو سکتی ہیں اور حقیقی بھی۔ اس وقت بھی دونوں طرف دلائل موجود ہیں اور دونوں دلائل میں وزن بھی ہے اور نقائص بھی۔ سیاسی جماعتیں مذاکرات کر رہی ہیں۔ دیکھتے ہیں اس کے نتیجے میں معاملہ سلجھتا ہے یا مزید الجھ جاتا ہے۔ لیکن ان مذاکرات کا جو بھی نتیجہ نکلے یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ نگران حکومتوں کے دورانیے کی مدت کیا ہے؟
فرض کریں ان سب میں اتفاق ہو جاتا ہے کہ الیکشن ستمبر میں ہوں گے یا اکتوبر میں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت تک معاملات حکومت کیا یہی نگران حکومتیں چلائیں گی؟ اگر یہی چلائیں گی تو ان کو مینڈیٹ کہاں سے ملے گا؟ کیا سیاسی جماعتوں میں ہونے والا کوئی اتفاق رائے آئینی بندوبست کو معطل کر سکتا ہے یا اسے ری رائٹ کر سکتا ہے؟ اس کی تشریح کون کرے گا کہ نگران حکومت نے کب تک رہنا ہے؟ کیا اس مدت کو عدالت کی طرف سے تحفظ دلوانے کی کوشش کی جائے گی؟ کیا عدالت یہ تحفظ دے سکتی ہے؟ کیا اس کے پاس یہ اختیار ہے؟ نیز یہ کہ عدالت سے آئین کی ایسی شر ح کی درخواست کرنا کیا پی ڈی ایم کے اس موقف کی نفی نہیں ہوگی کہ عدالت کوآئین کی تشریح کرتے وقت اسے ری رائٹ کرنے کا کوئی اختیار نہیں؟
عدالت نے پہلے انتخابات کی جو تاریخ دی ہے وہ آئین میں دی گئی 90 دن کی مدت سے تجاوز ہے۔ کیا عدالت کو یہ اختیار تھا کہ وہ آئین میں دی گئی مدت سے تجاوز کرتی؟ کیا سیاسی جماعتوں کو یہ اختیار ہے؟ جب عدالت خود 90 دن سے آ گے جا چکی تو حکومت یا الیکشن کمیشن پر 90 دن کے اصول کی پامالی پر گرفت کیسے ہو سکے گی؟ یہ گرفت آئین سے انحراف پر ہوگی یا عدالت کے حکم سے انحراف پر؟ زیادہ سنگین کیا ہے؟ آئین سے انحراف یا عدالت کے حکم سے انحراف؟ اگر عدالت کا حکم ہی آئین سے متجاوز ہو تو اس کی حکم عدولی پر گرفت کا پیمانہ کیا ہوگا؟
فرض کریں اہل سیاست میں اتفاق رائے ہو جاتا ہے۔ ایک دوماہ بعد الیکشن ہو جاتے ہیں۔ اس دوران نگران حکومتیں جو فیصلے کریں گی ان کی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا انہیں از خود ہی جائز تصور کر لیا جائے گا؟ کیا اہل سیاست کا پارلیمان سے باہر ہونے والا اتفاق، جس میں ایک فریق پارلیمان کا حصہ ہی نہ ہو، آئینی مبادیات کو بدل سکتا ہے؟ کیا یہ معاملہ پارلیمان میں لانا پڑے گا اور اسے قانونی تحفظ دینا پڑے گا جیسے غیر آئینی حکومتوں کو دیا جاتا ہے؟ یا کیا عدالت سے یہ کہا جائے گا کہ نگران حکومت کے اپنے دورانیے سے زائد عرصے میں کیے گئے فیصلوں کو تحفظ دے؟ کیا عدالت کے پاس آئین کے تحت ایسا حکم جاری کرنے کاکوئی اختیار ہوگا؟
نگران حکومت کے جو لوگ مقررہ مدت کے بعد منصب پر فائز ہیں، اس کے بارے میں سوال اٹھا تو جواب کیا ہوگا؟ وہ کس اختیار اور کس حیثیت سے اقتدار میں رہے؟ کیا عمومی اتفاق رائے کی صورت میں آئینی حدود ساقط ہو جاتی ہیں؟ یعنی کشمکش اقتدار کے چند سیاسی حریف پارلیمان سے باہر بیٹھ کر کچھ طے کر لیں تو اس معاہدے کے سامنے آئین بے حیثیت ہو جاتا ہے؟ اس صورت میں کیا میثاق جمہوریت کو دستور پاکستان پر فوقیت دی جانی چاہیے؟ کیا دستور پاکستا ن پر عمل درآمد عدالت کے تین رکنی بنچ اور سیاسی حریفوں کی تائید سے مشروط ہے؟ نیز یہ کہ کیا اہل سیاست کچھ اور طے کر لیں تو یہ آئینی بندوبست کا متبادل ہوجائے گا؟
قانونی سوالات کو جب ہم سیاسی پیرائے میں دیکھتے ہیں تو نتائج فکر ناقص نکلتے ہیں۔ ہم یہی دیکھتے ہیں کہ کون سا موقف کس گروہ کے حق میں جا رہا ہے اور کون سا موقف کس گروہ کے بیانیے سے متصادم ہے۔ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا یہ انداز مقبول ضرور ہے اور رائج بھی ہے لیکن یہ ناقص ہے۔
قانونی اور آئینی سوالات کو اس سیاسی اور گروہی صف بندی سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ آج جو روایات قائم کی جا رہی ہیں، آنے والے وقتوں کے لیے یہ ایک ریفرنس بن جائیں گی۔ اسی سے آپ کی جورس پروڈنس تشکیل پاتی ہے۔ کل جو غلطیاں ہوئیں ان کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ آج جو غلطیاں ہوں گی ان کا خمیازہ ہم آنے والے دنوں میں بھگتیں گے۔ ہماری جورسپروڈنس کی ابتدائی اینٹیں ہی ٹیڑھی ہیں۔ انہیں مزید ٹیڑھا ہونے سے بچانا چاہیے۔ سیاسی مفادات جو بھی ہوں اور جس کے بھی ہوں، ان سے بالاتر اور بے نیاز ہو کر معاملات کی صورت گری کرنا ہوگی۔