نواز شریف، بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
شرافت کی صحافت زرداری کی ہجو کہہ رہی ہے کہ انہوں نے پی ڈی ایم کو عین وقت پر دھوکہ دیا۔ دستر خوان شریف سے فیض پانے والوں کا معاملہ الگ ہے ان کی مبلغ دانش شریف یہ ہے کہ نواز شریف جو کرتے ہیں ٹھیک کرتے ہیں۔ دستر خوان شریف سے باہر کی دنیا مگر مختلف ہے اور وہ پوچھ رہی ہے کہ آصف زرداری نواز شریف کی جنگ شریف کیوں لڑتے؟
پی ڈی ایم ایک سیاسی اتحاد ہے، میاں نواز شریف کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نہیں ہے کہ ہاتھ باندھ کر کہے: میاں صاحب کڑاکے کڈھ دیو۔ سیاسی اتحاد میں شامل ایک جماعت کوئی ایسا فیصلہ کیوں کرے گی جس میں فائدہ کسی اور کے حصے میں آئے اور نقصان اس کے حصے میں۔ مروت میں اتنا تو ہو سکتا ہے کہ حساب سودو زیاں میں تھوڑا سا نقصان اٹھا لیا جائے لیکن سیاسی خود کشی کون کرتا ہے؟
مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں پی ڈی ایم کی 9 کی 9 جماعتیں استعفوں پر تیار تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کون سی 9 جماعتیں؟ جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے سوا کون سی قابل ذکر جماعت پی ڈی ایم کا حصہ ہے؟ اویس نورانی استعفوں پر تیار تھے لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ صاحب کس ایوان کا حصہ تھے جہاں سے انہوں نے مستعفی ہونے کا اصولی فیصلہ کر رکھا تھا؟ قومی وطن پارٹی کے پاس سینیٹ، قومی اسمبلی اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلی میں ایک بھی نشست نہیں ہے، مولانا بتائیں گے یا آفتاب شیر پائو صاحب سے پوچھنا پڑے گا کہ اس جماعت نے کہاں سے مستعفی ہونے کا اصولی فیصلہ کر رکھا تھا؟
پختون خواہ میپ کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست نہیں اور بلوچستان اسمبلی کی صرف ایک نشست ہے، کیا اچکزئی صاحب بتائیں گے کہ وہ کہاں کہاں سے مستعفی ہو کر جمہوریت کے لیے عظیم الشان قربانیوں کا فیصلہ کیے بیٹھے تھے؟ نیشنل پارٹی کے پاس نہ قومی اسمبلی میں کوئی نشست ہے نہ بلوچستان اسمبلی میں، وہ کہاں سے مستعفی ہونے کے لیے تیار تھی؟ جمعیت اہل حدیث نے کہاں کہاں سے استعفی دینا تھا؟ اے این پی ولی نے کہاں سے مستعفی ہونا تھا؟ خود اے این پی کی قومی اسمبلی میں مبلغ ایک نشست ہے، البتہ کے پی میں اس کے پاس ایک درجن صوبائی نشستیں ہیں لیکن وہ حزب اختلاف میں ہے۔ ان جماعتوں کے استعفوں کی کیا حیثیت؟
پیپلز پارٹی کا معاملہ اور ہے۔ وہ صوبہ سندھ میں اقتدار میں ہے۔ سینیٹ میں اس نے ابھی تازہ تازہ حکومت کو شکست دی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ عام انتخابات جتنے بھی صاف اور شفاف ہو جائیں پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مرکز میں حکومت بنا سکے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ آئندہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کمال بھی کر دکھائے تو اتنا ہی ہو گا کہ سندھ میں حکومت بنا لے۔ تو سندھ میں تو وہ اب بھی حکومت میں ہے۔ وہ کیوں مستعفی ہو؟ اپنے ہاتھ سے نواز شریف کی خاطر اپنے اقتدار کو پیپلز پارٹی کیوں دائو پر لگائے؟ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو مہربانیاں نواز شریف نے کر رکھی ہیں انہیں بھلا بھی دیا جائے تب بھی ایک سیاسی جماعت جمع تفریق سے تو بے نیاز نہیں ہو سکتی۔ اس جمع تفریق میں پیپلز پارٹی کے لیے کیا رکھا ہے کہ وہ نواز شریف کی لڑائی لڑتے ہوئے استعفے دے دے؟
مولانا فضل الرحمن کے اپنے پاس بھی گنوانے کے لیے کچھ نہیں۔ جب وہ اقتدار کے مزے لے رہے تھے اس وقت مستعفی ہونے کی بات انہیں بھی نامعقول اور جذباتی بات لگتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ قاضی حسین احمد صاحب تو جذباتی ہو رہے ہیں لیکن مولانا تو بصیرت اور حکمت کا ہمالہ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ استعفوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ بصیرت اور حکمت کا ہمالہ آج استعفوں پر مائل ہے تو سوائے اس کے اور کیا تبدیلی آئی ہے کہ حکمت کا یہ ہمالہ اس وقت اقتدار سے دور ہے۔
جھگڑا نواز شریف کا ہے اور نواز شریف کا جھگڑا بھی جمہوریت کا نہیں ذات کا جھگڑا ہے۔ وہ کسی بیانیے کے علمبردار نہیں ان کے پاس ایک تاجر کی طرح صرف بیعانیہ ہے۔ سیاست ان کے نزدیک کریانہ سٹور کے معاملات کا نام ہے۔ ساری عمر وہ بیساکھیوں کے سہارے چلے اور لوگوں کو استعمال کیا۔ شروع میں اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر اسلامی انقلاب کا پرچم تھام کر انہوں نے جماعت اسلامی کی افرادی قوت کو استعمال کیا۔ بعد میں تحریک وکلاء نے ان کی جنگ لڑی۔ ان کی راہ کی قانونی رکاوٹیں بے نظیر بھٹو نے دور کروائیں۔ میثاق جمہوریت کے نغمے پڑھے گئے لیکن جب موقع ملا تو نیلے رنگ کا سوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کے خلاف غداری کے مقدمے کا مدعی بن کر سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔
پی ڈی ایم میں بات لانگ مارچ کی ہو رہی تھی۔ اس پر پیپلز پارٹی تیار تھی۔ بیچ میں مولانا نے استعفوں کی شرط رکھ دی۔ پیپلز پارٹی استعفے کیوں دیتی؟ خود مولانا فضل الرحمن ہی وہ وجوہات بیان کر دیں تو عین نوازش ہو گی کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کے لیے اپنی حکومت کیوں قربان کرتی۔ کیا نواز شریف صاحب کی اپنی سیاسی زندگی میں کوئی ایک لمحہ ایسا ہے جہاں انہوں نے کسی اور جماعت کی خاطر ایسی کوئی قربانی دی ہو؟ یہ اعلائے کلمۃ الحق کی لڑائی تو ہے نہیں کہ زرداری دینی فریضہ سمجھتے ہوئے نواز شریف کا ساتھ دیتے۔ یہ سیاست ہے اور نواز شریف کسی اصول کی نہیں، اپنی بیٹی کی سیاسی وراثت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اس لڑائی میں زرداری بلاول کے سیاسی امکانات کیوں قربان کریں؟ پیپلز پارٹی کے لیے تو سیاست میں راستے کھلے ہیں۔ وہ نواز شریف کے ساتھ چل رہی ہے تو یہی بڑی بات ہے۔ لیکن نواز شریف ملک سے باہر ہوں، ان کا کارکن تک باہر نہ نکل سکے اور مولانا اکیلے اسلام آباد میں دھرنا دیے رکھیں اور اب میاں صاحب واپس آئے بغیر پیپلز پارٹی سے مطالبہ کریں کہ اقتدار قربان کر کے وہ ان کی جنگ لڑے یہ عجب مطالبہ ہے۔ اتنی سادگی اور بھولپن دیکھ کر آغا قزلباش یاد آتے ہیں:
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
کوئی دیکھے اس وقت چہرہ تمہارا