1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Murad Raas Sahab Ki Khidmat Mein

Murad Raas Sahab Ki Khidmat Mein

مراد راس صاحب کی خدمت میں

برادرم مراد راس نے اپنے ٹویٹ میں پنجاب کے سکولوں میں یکم جولائی سے یکم اگست تک گرمیوں کی تعطیلات کا اعلان کرتے ہوئے بچوں اور والدین سے استدعا کی کہ حکومت کی ایس او پیز کا خیال رکھیں۔ لیکن حکومتی رٹ کا عالم یہ ہے کہ آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں شہر کے تمام نجی سکول کھلے ہیں اور راولپنڈی کا درجہ حرارت 42 سینٹی گریڈ ہے۔ مراد راس صاحب کی خدمت میں اب سوال یہ ہے کہ آپ کی حکومت ہے کہاں کہ اس کی ایس او پیز کا خیال رکھا جائے؟

دو نوٹی فیکیشن اس وقت گردش کر رہے ہیں۔ ایک نوٹی فیکیشن میں سرکاری اور نجی تمام سکول بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسرے نوٹی فیکیشن کے مطابق صرف سرکاری سکولوں میں چھٹیاں کی گئی ہیں۔ وزیر تعلیم کے ٹویٹ میں البتہ سرکاری اور نجی کی بجائے صرف سکولوں کی بات کی گئی ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ پنجاب کے تمام سکولوں میں تعطیلات ہو چکی ہیں۔ سوال اب بڑا سادہ ہے۔ اگر حکم تمام سکولوں کے بارے میں تھا تو نجی تعلیمی اداروں کو یہ حکم پامال کرنے کی جرات کیسے ہوئی اور اگر حکم صرف سرکاری سکولوں کے بارے میں تھا تو کیا وزیر تعلیم کے خیال میں گرمی صرف سرکاری سکولوں میں پڑ رہی ہے اور نجی تعلیمی اداروں میں اس وقت بہار کا موسم ہے؟

ریاست کے اندر ریاست کیسے بنتی ہے اور حکومت کی رٹ کا تماشا کیسے لگتا ہے اس کو جاننے کا واحد پیمانہ محض قانون اور جرم نہیں۔ اس کا سماجی مطالعہ بھی بہت اہم ہے۔ رات جب بچوں نے سنا کہ وزیر تعلیم نے تعطیلات کا اعلان کر دیا ہے تو وہ خوش ہوئے کہ اس شدید گرمی میں سکول جانے کی اذیت سے نجات مل گئی لیکن صبح انہیں معلوم ہوا کہ سکول تو کھلے ہوئے ہیں اور سکول سے فون آیا ہے کہ آپ سکول کیوں نہیں آئے تو ان کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ یہ نفسیاتی تجربہ اب ان کے لاشعور کا حصہ بن چکا کہ حکومتوں کی بات کو اتنا سنجیدہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔ بچپن میں چند ایسے تجربات انہیں پہلے ہی ہو چکے، چند مزید ہو گئے تو پھر ساری زندگی " حکومتی رٹ" ان کے لیے ملا نصیر الدین صاحب مرحوم کے لطیفے سے زیادہ نہیں ہو گی۔ معاشرہ پہلے فکری اور نفسیاتی سطح پر تباہ ہو تا ہے اس کے بعد اس کا عملی اظہار ہونا شروع ہوتا ہے۔

اگر یہ حکم صرف سرکاری سکولوں کے لیے تھا تو یہ فیصلہ سازوں کے عدم توازن کی خبر دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ معاملات حکومت کیسے کارِ طفلاں بنا دیے جاتے ہیں۔ ہر حکم کی ایک شان نزول ہوتی ہے۔ گرمیوں کی تعطیلات کی شان نزول موسم کی حدت ہے۔ درجہ حرارت 42سے اوپر جا چکا ہے۔ سکولوں میں ٹھنڈے پانی کا انتظام تو دور کی بات پنکھوں کا مناسب انتظام بھی نہیں ہے۔ صرف لوڈ شیڈنگ کا عذاب نہیں ہے کئی سکولوں میں سرے سے بجلی ہی نہیں ہے۔ بچوں سے ایس او پی پر عمل پیرا ہونے والے وزیر تعلیم کیا بتا سکتے ہیں کہ اس گرمی میں کلاس روم کے حبس میں کورونا ایس او پی کے تحت کیا کوئی انسان ماسک پہن کر بیٹھ سکتا ہے؟

تعطیلات کے فیصلے کی علت جب موسم کی شدت ہے تو کیا محکمہ تعلیم پنجاب کے پاس کچھ ایسے ماہرین موسمیات ہیں جنہوں نے انہیں خبر دی ہے کہ گرمی صرف سرکاری سکولوں میں پڑ رہی ہیں اور نجی تعلیمی اداروں میں تو موسم بڑا ہی سہانا ہے۔ اگر آئین پاکستان کے تحت تمام شہری برابر ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ سرکاری سکول کے بچوں کو گرمی سے بچانے کے لیے تعطیلات کر دیں اور نجی سکولوں کے بچوں کو گرم موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں؟ کیا یہ سارے بچے ریاست کے بچے ہیں یا نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچے سوتیلے ہیں۔ گرمی سے بیمار ہوں یا مر جائیں وزیر تعلیم کی جانے بلا؟

اور اگر یہ فیصلہ تمام سکولوں کے لیے تھا تو یہ کیسے ممکن ہوا کہ نجی تعلیمی ادارے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور سکول کھول کر بیٹھے ہیں؟ کیا نجی سکولوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی ادارہ نہیں؟ کیا ان اداروں کو ریاست کے اندر ریاست سمجھا جائے جہاں ان کی اپنی عملداری ہے اور وہ وزیر تعلیم کے جاری کردہ نوٹی فیکیشن سے مبرا ہیں؟ کیا کارپوریٹ مفادات اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ ریاست اپنے بچوں سے دست بردار ہو چکی ہے اور نئے ماہ کی فیسیں جب تک لے نہیں لی جاتیں تب تک بچوں کو گرمی میں جانا ہو گا؟

میرے بچے ضد کر کے سکول گئے اور اب بیمار ہوئے پڑے ہیں، کیا میں اپنے بھائی مراد راس سے پوچھ سکتا ہوں ان کی وزارت تعلیم اور اس کے ذیلی اداروں کی افادیت کیا ہے؟ نجی تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنے اور ان پر چیک اینڈ بیلنس کا کیا بندو بست ہے؟ کیا والدین کا کردار اتنا ہی ہے کہ وہ بے بسی سے فیسیں دیتے رہیں اور اس گرمی میں بچے بیمار کرواتے رہیں یا ان کے پاس داد رسی کے لیے کوئی حکومتی ادارہ ہے؟ کیا کبھی ایسے ادارے کی تشہیر کی گئی؟ کیا سکولوں کے فیس وائوچر کے ساتھ افادہ عام کے لیے ایسے ادارے کا ایڈریس اور فون نمبر نہیں لکھنا چاہیے جہاں والدین اپنے تحفظات اور شکایات پیش کر سکیں؟ ریاست اتنی لاتعلق کیسے ہو سکتی ہے؟

ریاست کی رٹ ایک یا دو دنوں میں چیلنج نہیں ہوتی، یہ سانحہ برسوں میں مکمل ہوتا ہے۔ یہ رٹ پہلے بچوں کے ذہنوں سے مٹتی ہے پھر کہیں جا کر عملی زندگی سے اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جو نسل یہ دیکھ رہی ہے کہ وزیر تعلیم کے اعلان کے باجود سکول چھٹیاں نہیں کر رہے وہ نسل اصل میں یہ سبق لے رہی ہے کہ ریاست کی رٹ کتنی آسانی سے پامال کی جا سکتی ہے۔

عوام پر بھی آفرین ہے۔ اس گرمی میں بچوں کو سکول بھیج رہے ہیں اور اتنی ہمت نہیں کہ سکول انتظامیہ سے بات کر سکیں۔ ڈرتے ہیں کہ سکول انتظامیہ اپنا غصہ بچوں پر نہ نکالے۔ امریکہ البتہ بہت دور ہے، اسے گالی دینے کی مکمل آزادی ہے اور اس میں کوئی خطرہ بھی نہیں۔

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali