Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Munira Yamin Satti Banam Punjab Assembly

Munira Yamin Satti Banam Punjab Assembly

منیرہ یامین ستی بنام پنجاب اسمبلی

کورونا کے مرض میں مبتلا رکن صوبائی اسمبلی محترمہ منیرہ یامین ستی نے بستر مرض سے سپیکر پنجاب اسمبلی کو ایک خط لکھا۔ یہ خط جب اسمبلی میں پڑھ کر سنایا گیا تو منیرہ یامین ستی صاحبہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ کوئی اور معاشرہ ہوتا تو ایک بھونچال آ جاتا لیکن ہمارے معزز اراکین اسمبلی نے خط سنا، ایک لمحے کو جذباتی ہو کر پلکیں بھگوئیں، آنسو پونچھے او ر پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

منیرہ یامین ستی کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا لیکن بستر مرگ سے انہوں نے جناب سپیکر کو جو خط لکھا اس میں وہ بے نظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی کے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تعریفیں کرتی پائی گئیں۔ خط کے مندرجات سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید مرض کی شدت میں انہیں احساس ہو گیا تھا کہ ان کا وقت آن پہنچا ہے اور اب وہ ایوان میں نہیں جا سکیں گی۔ چنانچہ میڈیکل عملے کا قرض اتارنے کی کوشش میں انہوں نے سپیکر کو یہ خط بھیجا۔

ذرا پڑھیے وہ کیا لکھتی ہیں:جناب سپیکر مجھے نہیں معلوم کہ اللہ تعالی مجھے دوبارہ اسمبلی تک آنے کا موقع فراہم کرے گا یا نہیں مگر میں اس مرض کے دوران علاج کی غرض سے ایک سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہوں اور میں نے جو کچھ یہاں مشاہدہ کیا ہے اور جس سے میں گزری ہوں وہ میں آپ سے اس خط کے ذریعے بیان کرنا چاہتی ہوں تاکہ اگر اللہ نے مجھے دوبارہ اسمبلی میں آنے کا موقع نہ بھی دیا تو میں آپ کے توسط سے بے نظیر بھٹو ہسپتال راولپنڈی کے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی جواں مردی، بہادری اور اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر کرونا کے شکار مریضوں کے علاج کی صورت حال سے آگاہ کر سکوں۔

جناب سپیکر میں میری گزارش ہے کہ میں زندہ رہوں یا نہ رہوں مگر میرا یہ خط کوئی بھی معزز ممبر بطور قرارداد اس ایوان میں پیش کرے کہ اس ہسپتال کا طبی عملہ مریضوں کا جس طرح بلا تفریق اور بہترین ممکن علاج کر رہے ہیں اس کے لیے پنجاب اسمبلی ان فرشتہ صفت مسیحائوں کو خراج تحسین پیش کرے۔

حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی ایک رکن اسمبلی کا یہ خط پڑھا تو مجھے برادرم سبوخ سید یاد آگئے۔ پہلے دن ہی سے ان کا یہ استدلال تھا کہ ہمارے ڈاکٹرز اپنی بساط سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں اور ہمیں ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔ بستر مرگ سے آنے والی اس گواہی نے سبوخ سید کے موقف اور ڈاکٹرز کی محنت پر گویا مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ گواہی چونکہ حزب اختلاف کی طرف سے آئی ہے اس لیے اس کے اعتبار کا حجم بھی زیادہ ہے۔

طبی عملے نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لاک ڈائون کے ابتدائی ایام میں جب لوگ ڈر کر گھروں میں بیٹھ گئے یہ طبی عملی تھا جس نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ہسپتالوں میں اپنے فرائض سر انجام دیے۔ اکا دکا واقعات کی تلخی کے باوجود یہ طبی عملہ ہمارا ہیرو ہے۔ مسائل کا زیادہ تر تعلق وسائل سے ہے اور وسائل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسی خط میں جہاں مرحومہ طبی عملے کی تعریف کر رہی تھیں انہوں نے حکومت کی توجہ ایک اور مسئلے کی جانب بھی مبذول کرائی۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کے آزار نے عام آدمی کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ وزیر صحت پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے مرحومہ نے لکھا کہ ہسپتالوں میں جہاں طبی عملہ بہترین خدمات انجام دے رہا ہے وہیں وسائل کی کمی ہے۔ لیب فیسیلٹی یعنی لیبارٹریوں کے بارے میں انہوں نے وزیر صحت سے گذارش کی کہ کرونا کے علاج کے لیے لیب کی سہولیات بہتر کی جائیں اور وسائل فراہم کیے جائیں۔ جب یہ آخری سطور پنجاب اسمبلی میں پڑھی جا رہی تھیں تو ماحول سوگوار تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگلے ہی لمحے وزیر صحت بے نظیر بھٹو ہسپتال کے طبی عملے کو شاباش دیتے ہوئے ان سے پوچھیں گے کہ آپ کو کن مسائل کا سامنا ہے اور مرحومہ نے لیب کی جو بات کی ہے تو آپ رہنمائی کیجیے آپ کو مزید کیا کچھ چاہیے تا کہ ہم دنیا سے ملنے والی کرونا امداد میں سے آپ کو وہ چیزیں خرید کر دیں۔

جناب سپیکر نے تو ادھوری سی ایک رسم پوری کی کہ طبی عملے کو تعریفی خط لکھ دیا۔ لیکن وزیر صحت نے اپنے طبی عملے کو تھپکی دینا بھی گوارا نہیں کیا کہ اگر آپ کی حزب اختلاف کی رکن اسمبلی بھی تعریف کر رہی ہے تو آپ ڈاکٹرز اور نرسز اور سٹاف نے حکومت کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ نہ ہی انہیں یہ توفیق ہوئی کہ اس خط کے مندرجات کی بنیاد پر کوئی کارروائی کرتیں اور ہسپتال میں لیب فیسیلٹیز پر کوئی رپورٹ ہی منگوا لیتیں کہ وہاں کیا عالم ہے اور اصلاح احوال کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے۔ اسد عمر کے بعد تحریک انصاف میں اگر کسی کی فضیلت کے ڈھول بجائے گئے تھے تو وہ یہی یاسمین راشد صاحبہ تھیں اور اسد عمر کے بعد اگر کسی نے سب سے زیادہ مایوس کیا ہے تو یہی یاسمین راشد صاحبہ ہیں جو اپنی افتادطبع سے بتاتی ہیں کہ وہ اس منصب کے لیے شدید غیر موزوں شخصیت ہیں۔

موبائل پر کال کریں تو ایک خود کار پیغام سنائی دیتا ہے کہ کیا آپ جانتے ہین پاکستان میں کورونا اس تیزی سے کیوں نہیں پھیل سکا جیسے پوری دنیا میں پھیلا اور پھر اس کا جواب دیا جاتا ہے کہ کیونکہ ہم نے حفظان صحت کے اصولوں اور احتیاط کو مدنظر رکھا۔ لوگ چونکہ واقف حال ہیں اور انہیں خوب معلوم ہے ہم نے کتنی احتیاطی تدابیر اختیار کیں اس لیے وہ پیغام کو سنتے ہیں اور زیر لب مسکرا کر سوچتے ہیں کیا بقیہ حکومتی دعووں کی صداقت کا عالم بھی ایسا ہی ہے؟ یہ پیغام اصل میں بتا رہا ہے کہ ہم کورونا سے نبٹنے میں کتنے " غیر سنجیدہ" ہیں۔

پہلی بار میں نے یہ پیغام سنا تو مجھے لگا شاید کوئی تحقیق ہوئی ہے کہ کرونا پاکستان میں کیوں نہیں پھیل سکا اس لیے میں توجہ سے اسے سننے لگا۔ جب آگے سے جاسوسی فرمائی گئی کہ اس کی وجہ ہماری احتیاطی تدابیر ہیں تو میں نے گاڑی روک کر سڑک اور مارکیٹ پر نگاہ ڈالی۔ کسی ایک آدمی نے بھی ماسک نہیں پہنا ہوا تھا۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal