ملک تو آخر اپنا ہے
سیاسی اختلاف جیسے بھی ہوں اور جتنے بھی ہوں، ان میں تلخی کیسی ہی ہو اور کتنی ہی ہو، یہ کیسی وحشت ہے کہ شہدا کی یادگاروں کو بھی وحشت کا نشانہ بنا دیا جائے؟ تحریک انصاف کو، کوئی خبر کرے کہ وہ سماج کی روح میں گرہیں لگا رہی ہے، ایسا نہ ہوکہ کل کو یہ گرہیں دانتوں سے بھی نہ کھل سکیں۔ یہ گرہیں لگانے کا نہیں، گرہیں کھولنے کا وقت ہے۔
میرا تعلق سرگودھا سے ہے۔ یہاں مائوں کی لوری میں بتایا جاتا ہے کہ بنگال کا ایک بانکا تھا جس نے دشمن کے چھ جہاز گرا کر سر گودھا کی نگہبانی کی تھی۔ یہ ایم ایم عالم تھے۔ انہی کی نسبت سے سرگودھا کو شاہینوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ ایم ایم عالم سے محبت سرگودھا کی مٹی میں گندھی ہے۔ ایم ایم عالم اس محبت کا استعارہ ہیں جو ملک بھر کی مٹی میں مہک رہی ہے۔ کہیں عزیز بھٹی کی صورت، کہیں کرنل شیر خان کی شکل میں، کہیں عزیز بھٹی بن کر، کہیں لالک جان بن کر۔
یہ شہداء، ان کے مجسمے، ان کے ہتھیار، ان کے جہاز، یہ وہ علامتیں ہیں جو سانجھی ہیں۔ احتجاج یہاں پہلے بھی ہوئے، یہ ا حتجاج پاگل پن میں بھی بدلے، گھیرائو جلائو بھی ہوا، لیکن کسی نے عشق و محبت کی ان یادگاروں کو چھونے کی جرات نہیں کی۔ یاد گاریں نہ تھیں، یہ ہمارے تاج محل تھے۔ یہ قومی تفاخر کی علامات تھے۔
پچھلے دنوں جو کچھ ہوا، اس کی تکلیف روح میں کہیں اترکر بیٹھ گئی ہے۔ نکل ہی نہیں رہی۔ یہ جنگی جہاز تو قومی فخر کی نشانی تھے۔ یہ کرنل شیر خان کا مجسمہ تو ایک تذکیر تھی کہ جب دھرتی کے دفاع کی بات آتی ہے تو پھر جان کی تو کوئی بات نہیں رہتی، یہ تو آنی جانی ہے۔ یہ کیسا جنون ہے جس نے انہیں آ گ لگا دی، یہ کیسی وحشت ہے دھرتی ماں کی نشانیوں کو آگ میں ڈال رہی ہے؟
کوئی دکھ سا دکھ ہے کہ ا س حرکت کی توجیحات پیش کی جا رہی ہیں، سیاسی میدان میں بھی اور سوشل میڈیا پر بھی۔ اب بھی توجیحات تلاش کی جا رہی ہیں۔ دبی دبی تنقید ہو بھی رہی ہے تو اس کا مرکزی نکتہ شہدا کی یاد گاروں کی توہین کی نہیں بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ کہیں اس حرکت سے ممدوح گروہ کا سیاسی مستقبل متاثر نہ ہوجائے۔ تکلیف مادر وطن کے گھائو کی نہیں، تکلیف عشق نامراد کے مستقبل کی ہے کہ کہیں اس کا سیاسی مستقبل خراب نہ ہو جائے۔
ہماری ذ ات پر بات آ جائے ہم تلخ ہو جاتے ہیں، ہم گالیاں تک دینے لگتے ہیں لیکن شہدائے وطن کے مجسموں کو وحشت کی آگ چاٹ لے تو ہم برہم نہیں ہوتے۔ ہم توازن قائم کرتے رہتے ہیں۔ ہم معروضی تجزیے فرمانے لگتے ہیں۔ ہمیں اندیشے دامن گیر ہو جاتے ہیں کہ فلاں گروہ ناراض نہ ہو جائے، فلاں گروہ خفا نہ ہو جائے۔
سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے کا وقت ہے۔ اقتدار میں پی ڈی ایم رہے یا پی ٹی آئی، ہماری بلا سے۔ لیکن کسی سیاسی جتھے کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ اس کے وجود کی آگ وطن کے شہداء کے دامن سے لپٹ جائے۔ ایک مقام ایسا ہوتا ہے جہاں رک جانا ہوتا ہے۔ جہاں خود کو تھام لینا ہوتا ہے۔
یہ التجائوں کا وقت نہیں ہے کہ ہاتھ باندھ کر درخواست کی جائے کہ گرامی قدر ایک مذمتی بیان ہی جاری فرما دیجیے، آپ کی عین نوازش ہوگی اور آپ کا اقبال بلند ہوگا۔ یہ واضح طور پر، پوزیشن لینے کا وقت ہے کہ آپ میں سے کسی کی سیاسی وابستگی جو بھی ہو، موقف جیسابھی ہو، آپ ہماری قومی یادگاروں کی توہین کریں گے تو ہم گوارا نہیں کریں گے۔ اپنی وحشت کو ہمارے شہداء کی یادگاروں سے محفوظ رکھیے۔
یہ ایک مجہول طرز فکر ہے کہ وجوہات اور اسباب کے نام پر اس وحشت کا جواز تلاش کیا جائے۔ وجوہات کیسی ہی کیوں نہ ہوں، قومی تفاخر کی علامات کو جلانے کا جواز نہیں بن سکتیں۔ اس کی غیر مشروط، دوٹوک اور واضح مذمت ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ خود جناب عمران خان نے، معاف کیجیے، عمران خان نے اس کی مذمت کی بجائے حیلہ اور ہائپر ٹروتھ کا روایتی طریقہ اختیار کیا۔ ایک سانس میں کہا یہ ہمارے لوگ نہیں تھے، ساتھ ہی کہا مجھے گرفتار کیا گیا تو پھر یہی رد عمل آ ئے گا۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔
اس عالم میں بھی، سچ پوچھیے تو میرا گمان تھا کہ عمران خان نہ صرف اس کی مذمت کریں گے بلکہ رہائی کے بعد وہ سیدھا شہداء کی ان یادگاروں پر جائیں گے، قوم سے معافی مانگیں گے، بلوائیوں سے اعلان برات کریں گے، وہاں پھول رکھ آئیں گے، شہداء کے مجسموں کو اپنے ہاتھوں سے نصب کریں گے، جلے ہوئے جہاز پر اشک ندامت کا مرہم رکھیں گے اور کہیں گے کہ میرا سیاسی موقف آج بھی وہی ہے لیکن محبت کے یہ تاج محل سانجھے ہیں، یہ میرے بھی ہیں۔ ان شہیدوں نے پی ڈی ایم کے لیے جان نہیں دی تھی ملک کے لیے دی تھی۔ اور ملک تو سب کا ہے۔
لیکن عمران نے ایک تکلیف دہ اور سفاک بے نیازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس رویے نے دل میں گھائو کر دیا ہے۔ یہ گھائو بڑھتے جا رہے ہیں۔ قوم کی جذباتی و ابستگی سے اتنی بے اعتنائی، افتاد طبع کی نرگسیت کے سوا کیا ہو سکتی ہے؟
ہم نے دو بڑے جنازے اٹھائے، ایک ڈاکٹر اے کیو خان کا اور دوسرا سید علی گیلانی کا۔ عمران خان چند قدموں کے فاصلے پر بیٹھے رہے اور شریک ہونا گوارا نہ کیا۔ کشمیر ہائوس میں علی گیلانی کا جنازہ ہوا تو وہاں عمائدین ریاست موجود تھے اور سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن عمران نے وہاں جانا بھی گوارا نہ کیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی چیز لگتی ہے لیکن یہ معمولی نہیں۔ اس میں جہان معنی ہوتا ہے اور اس رویے کا گھائو کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ مندمل ہو بھی جائے تو زخم کا داغ نہیں جاتا۔
اب جب کہ ہر دل دکھی ہے عمران خان کا رویہ نہ صرف بے نیازی کا ہے بلکہ اب کی بار اس میں نمک بھی شامل ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت جواز اور عذر گناہ تراشے جا رہے ہیں، ویڈیوز اور آٓڈیوز موجود ہیں کہ ان کے کارکنان اور قیادت کا رویہ کیا تھا لیکن یہ پوسٹ ٹروتھ کے روایتی اعتماد سے ہر چیز کی تردید کر رہے ہیں۔ یہ رویہ ایک ذمہ دار مقبول قومی سیاسی رہنما کا نہیں ہے۔ یہ ذات کے گنبد میں قید رویہ ہے۔ قیادت اگر ذات کے گنبد کی اسیر ہو کر رہ جائے تو اس سے المیے پھوٹتے ہیں۔
خلط مبحث، پوسٹ ٹروتھ، ہائپر ٹروتھ، عقیدت بھرے تجزیے، کچھ بھی کام نہیں آئیں گے۔ گرفتاری کوئی ایسی انہونی بات نہ تھی کہ رد عمل میں ایسی انتہا تک جایا جاتا۔ خود تحریک انصاف کی خیر خواہی بھی یہ نہیں کہ اس کی ہر حرکت کا دفاع کیا جائے، خیر خواہی یہ ہے کہ اسے روک کر کہا جائے وہ اندھے کنویں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ رک جائیے۔