Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Mein Ye Ghari Bechna Chahta Hoon

Mein Ye Ghari Bechna Chahta Hoon

میں یہ گھڑی بیچنا چاہتا ہوں

افتخار سید میرا بہترین دوست ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سعودیہ سے آیا تو میرے لیے ایک قیمتی گھڑی لایا۔ رسٹ واچ سے مجھے الجھن ہوتی ہے۔ میں نے زندگی میں کبھی گھڑی نہیں پہنی۔ یہ گھڑی بھی پہننے کی کوشش کی لیکن جزوی طور پر ہی کامیاب ہو سکا۔ چنانچہ اب وہ گھر میں رکھی ہے اور یاد دلاتی ہے کہ میں تمہارے عزیز ترین دوست کا تحفہ ہوں۔ ہاں کبھی کبھار علی اسے الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے کہ جب بڑا ہو جائوں گا تو ایسی ہی گھڑیاں پہنا کروں گا۔

آج افتخار نے بتایا کہ میں نے تمہارے لیے سوئٹزر لینڈ کی Tissot گھڑی لی ہے، جو پہلے والی سے زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ پہلے والی بھی ایسے ہی پڑی ہے۔ کبھی کبھار ہی پہنتا ہوں۔ ایک تو پہن کر الجھن سی ہوتی ہے دوسرا سوئیوں والی اس گھڑی سے وقت دیکھنا ویسے ہی خاصا مشکل کام ہے۔ اب گھڑ ی بلاوجہ پہن لینا کوئی معقول کام نہیں ہے۔ اس لیے تم یہ گھڑی مجھے مت بھجوانا۔ میں اتنی مہنگی گھڑی پہن کر ایزی فیل، نہیں کر سکتا۔

افتخار کا کہنا تھا کہ گھڑی لی جا چکی ہے اور پاکستان بھیجی جا چکی ہے۔ اس کے مزید دلائل یہ تھے کہ یہ گھڑیاں بھلے آپ کو وقت نہ بتا سکیں اور آپ ان سے وقت دیکھنے کی بجائے موبائل فون سے وقت دیکھنا پسند کرتے ہوں اور آسان سمجھتے ہوں لیکن اس کے باوجود ان گھڑیوں کی اپنی ایک افادیت ہے۔ یہ آپ کو وقت نہ بھی بتائیں تو یہ لوگوں کو آپ کا وقت ضرور بتاتی ہیں کہ آپ اچھے وقت سے گزر رہے ہیں اور آپ پر اللہ کا کرم ہے کہ آپ نے اتنی قیمتی گھڑی پہن رکھی ہے۔ میرے لیے اس سے بحث کرنا مشکل تھی لیکن قائل ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

اب میں بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ ان دو گھڑیوں کا کیا کروں گا؟ سوشل میڈیا پر سرفنگ کرتے ہوئے اچانک ہی غیب سے ایک ایسا مضمون خیال میں آیا کہ جی خوش ہو گیا۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ یہ گھڑی بیچ دوں گا اور اس سے جو ملیں گے ان سے ہفتہ بھر مزے کروں گا اور گنگنائوں گا کہ اچھے دن آئے ہیں، اچھے دن آئے ہیں۔ افتخار کا کیا ہے اسے کون سا پتا چلے گا کہ اچھے دن کیسے آئے ہیں۔

لیکن پھر کچھ عجب ہوا۔ معلوم نہیں کہانی کیا ہے لیکن سارا سوشل میڈیا " گھڑیال" بنا پھرتا ہے۔ جیسے گھڑی تو اچانک اہم ہو گئی ہو۔ ڈاکٹر محمد مشتاق نے منادی دی ہوئی تھی یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے،۔ انہونی یہ تھی کہ پہلی بار محشر کی بجائے اس مصرعے میں گھڑی پر زور تھا۔ اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سابق سربراہ استاذ محترم عزیز الرحمن نے لکھا تھا کہ نیک حکمران ٹوپیاں سی کر ہی نہیں گھڑیاں بیچ کر بھی گزر اوقات کر لیتے ہیں۔

لوگوں نے گھڑی پر شعر لکھنے شروع کر دیے تھے۔ بیرسٹر ترمذی نے لکھا تھا یہ گھڑی ملال کی ہے،۔ ایک صاحب دہائی دے رہے تھے دو گھڑی میسر ہو اس کا ہم سفر ہونا،۔ ایک نوجوان شکوہ کناں تھا اک گھڑی کیا بیچ دی میں نے، وقت پیچھے ہی پڑ گیا میرے،۔ خواجہ ریحان بھی اداس کھڑے تھے کہ آج میری کلائی اک گھڑی سے بھی محروم ہے،۔ ایک صاحب شوخ ہوئے پھرتے تھے کہ اک کلائی سے عشق ہے مجھ کو، اس پہ باندھی گھڑی کے صدقے میں۔ ایک دوست ہمیشہ کی طرح حکمت بھرے بھید لکھ رہے تھے میرا تحفہ میرا دل تھا، تیرا تحفہ فقط اک گھڑی،۔ اک محترمہ آواز لگا رہی تھیں پیش کر غافل اگر کوئی گھڑی دفتر میں ہے،۔

عجیب حیرت ناک منظر تھا۔ ہر طرف گھڑی کے سہرے کہے جا رہے تھے۔ موبائل کے زمانے میں جب شاید ہی کوئی گھڑی دیکھتا ہو لوگوں کو یوں گھڑی کے فضائل بیان کرتے دیکھا تو خیال آیا کہ گھڑی بیچنے کا خیال درست نہیں تھا۔ نئے پاکستان میں گھڑی تو اچانک بہت اہم ہو گئی ہے۔ ایسے میں کیا یہ مناسب لگے گا کہ ایک پیارے دوست کا تحفہ بیچ دوں۔ پھر اوپر سے ٹوئٹر پر لوگوں نے معلوم نہیں کیوں گھڑی فروش، کی مذمت میں اچانک سے ایسے ایسے مضامین باندھنے شروع کر دیے کہ میں تو گھڑی فروشی کا سوچ کر ہی ڈر گیا۔ سہما بیٹھا اب سوچ کیا گھڑی فروشی واقعی اتنا سنگین جرم ہے؟ ابھی تو میں نے گھڑی بیچنے کا صرف سوچا تھا اور عزیز ہم وطنو ں نے اتنا شور مچا دیا، اگر میں سچ میں گھڑی بیچ آیا تو کیا ہو گا۔

ایک سیانے سے مشورہ کیا کہ صاحب گھڑیاں بہت قیمتی ہیں۔ مجھے اتنی قیمتی گھڑیاں پہننے کا شوق نہیں، بیچنے کا خیال آیا تو خلق خدا خفا ہوئی پھرتی ہے اور یوں لگتا ہے گھڑی فروشی بہت برا جرم ہے، اب تم ہی بتائو میں کیا کروں؟

سیانے نے سوچ کر کہا کہ بیچ دو، کوئی حرج نہیں ہے، مگر خیال رہے سعودیہ کے جس دوست نے تمہیں یہ گھڑیاں تحفے میں دی ہیں اس کو پتا نہ چلے۔ اب یہ شرط تو بڑی مشکل ہے۔ افتخار اگر چہ سعودیہ میں بیٹھا ہے مگر گھڑیاں بیچ بیٹھا تو اسے معلوم ہو ہی جانا ہے۔ اور اگر اسے معلوم ہو گیا تو ہاسٹل ون کے سارے گلوبل ولیج، میں خبر پھیل جانی ہے اور بڑی رسوائی ہونی ہے۔ میں نے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنا۔ شرمندگی ہی شرمندگی ہو گی۔ اس ممکنہ منظر نامے کے تصور ہی سے جھر جھری آ گئی۔

اب میں کیا کروں؟ گھڑیاں تو میں نے بیچنی ہی بیچنی ہیں۔ میں نے انہیں چھوڑنا نہیں ہے۔ لیکن کیسے بیچی جائیں کہ عزت کا آملیٹ نہ بنے اور افتخار کو پتا بھی نہ چلے۔ اتنے عرصے سے میں اہم قومی اور سیاسی امور پر آپ کی" رہنمائی " فرماتا آ رہا ہوں تو اے میرے پیارے قارئین، کیا آپ اس چھوٹے سے مسئلے میں میری" رہنمائی" نہیں فرمائیں گے؟

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed