Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Mehange Petrol Ke 6 Musbat Pehlu

Mehange Petrol Ke 6 Musbat Pehlu

مہنگے پٹرول کے 6 مثبت پہلو

یکم نومبرکو سارا دربار زلفوں کے تار تھام کر داد طلب تھا کہ آقائے ولی نعمت نے پٹرول مہنگا کرنے کے لیے بھیجی گئی اوگرا کی سمری مسترد کر دی ہے اور چار نومبر کو رات گئے چشمِ یار کے فریب کی طرح چارہ گری فرماتے ہوئے پٹرول مہنگا کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اضافہ ہی کرنا تھا تو تین دن پہلے سمری کیوں رد کی تھی اور سمری رد کرہی دی تھی تو ایسا کیا ہوا کہ تیسرے ہی دن قوم کے نام ستم کا طومار روانہ کرنا پڑ گیا۔ یہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی ریاست میں معاملات حکومت طے کیے جا رہے ہیں یا گلی قاسم جان کے بے فکرے بیٹھ کر پچیسی کھیل رہے ہیں۔

خرابی عالمی منڈی کی بڑھتی قیمتوں میں نہیں، خرابی اس معاشی حکمت میں ہے جس نے روپے کو نہ صرف رسوا کر دیا بلکہ اس رسوائی کے سہرے بھی کہے۔ بے ادائی کے خمار میں لپٹے وہ کیسے مہربان تھے جو بتایا کرتے تھے کہ پہلے والوں نے روپے کو مصنوعی طور پر سہارا دیا ہوا تھا، ہم نے اسے قدرتی طور پر بے توقیر کر دیاہے۔ بس اب کچھ ہی دنوں ہی کی بات ہے ہماری اس مسیحائی سے معیشت کے سارے دکھ دور ہو جائیں گے۔

قافلہ انقلاب کی ہر بات ہجو ہے اور بلائے جاں ہے۔ ورنہ کاغذ کی کرنسی میں حقیقی کیا اور مصنوعی کیا۔ خود ڈالر کی اس وقت جو قدر ہے کیا وہ سب حقیقی ہے یا اس کے پیچھے بیٹھے منصوبہ سازوں کی ہنر کاری بھی اس میں شامل ہے؟ پاکستان میں کسی نے جمع تفریق سے روپے کو رسوا ہونے سے بچایا ہوا تھا تو اس کی تحسین ہونی چاہیے تھی یا اس پر تعزیر کی روبکار بھیجی جانی چاہیے تھی؟ معیشت کے انتہائی مقامی قسم کے ماہراسد عمر صاحب سے ہی پوچھ لیجیے کہ مصنوعی طور پر مستحکم روپیہ اچھا تھا یا" قدرتی" طور پر بے توقیر ہوتا روپیہ اچھا ہے؟ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے، البتہ، چند مثبت پہلو بھی ہیں جنہیں نظر اندا ز نہیں کرنا چاہیے۔

پہلا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس فیصلے نے اس تاثر کو بالکل رد کر دیا ہے کہ جناب عمران خان ایک بے اختیار وزیر اعظم ہیں۔ وزیر اعظم نے اس فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں اور فیصلہ سازی میں وہ اتنے با اختیار ہیں کہ چاہیں تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے لیے بھیجی گئی اوگرا کی سمری رد کر دیں اور چاہیں تو تین ہی دن بعد بغیر کسی سمری کے پٹرولیم مصنوعات مہنگی کر دیں۔ وہ مختار کل ہیں۔ اور جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ کوئی انہیں روک ٹوک نہیں سکتا۔ جو لوگ عمران خان کی " مختاری" پر سوال اٹھاتے ہیں وہ پٹواری ہیں اور بغض کا شکار ہیں ورنہ وزیر اعظم تو اوگرا کی سمری کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔

دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ جب ساری قوم سرسوں کا ساگ کھا کر سو رہی ہوتی ہے اور خراٹے لے رہی ہوتی ہے، ہمارے محبوب وزیر اعظم اس وقت بھی جاگ کر قومی مسائل پر غورو فکر کر کے فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔ خدمت کا جذبہ ان میں یوں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے کہ وہ احساس ذمہ داری سے کئی کئی راتیں سو نہیں پاتے۔ مارگلہ کے جاڑے کی بے رحم رت میں آدھی آدھی رات تک جاگ کر وہ امور حکومت کی گتھیاں سلجھاتے رہتے ہیں۔ وہ اس مشہور قصے کی عملی تصویر ہیں کہ میں سو گیا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا۔

اس کا تیسرا مثبت پہلو جناب وزیر اعظم کی اپنے کازسے کمٹمنٹ ہے۔ وہ آج کا کام کل پر چھوڑنے کے بالکل قائل نہیں۔ وہ چاہتے تو پٹرول کی قیمت اگلی صبح بھی بڑھائی جا سکتی تھی لیکن وقت ضائع کرنا انہیں گوارا نہیں۔ چنانچہ رات گئے ہی پٹرول مہنگا کر دیا گیا۔

چوتھا مثبت پہلو یہ ہے کہ عمران خان جھوٹ نہیں بولتے اور جو کہتے ہیں کر دکھاتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے۔ قوم سے خطاب میں انہوں نے پٹرول کی قیمتیں بڑھا کر عوام کو ریلیف دینے کا جو وعدہ فرمایا اگلے ہی روز اس پر عمل کر دکھایا کہ ہم باتوں پر نہیں کام پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے قوم سے کیا ایک اور وعدہ پورا کر دیا۔ ہم نے سب کو رلانا ہے اور چھوڑنا کسی کو نہیں۔

پانچواں مثبت پہلو یہ ہے کہ عمران خان کی بصیرت اور آگہی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ اب وہ وقت نہیں رہا جب ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کا انہیں ٹی وی سے پتا چلتا تھا۔ اب وہ وقت سے پہلے ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ پٹرول مہنگا ہونا ہے اور پھر وہ اپنی قوم کو بھی رازکی یہ بات خطاب کر کے بتا بھی دیتے ہیں۔ جنہیں عمران خان سے بغض ہے ان کی بات الگ ہے ورنہ ساری قوم قائل ہو چکی ہے کہ بندہ پہنچا ہوا ہے۔

چھٹا مثبت پہلو یہ ہے کہ عمران خان قوم کا رشتہ اس کے شاندار اور تابناک ماضی سے جوڑنا چاہتے ہیں اور قدیم روایات کے احیاء کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے ارطغرل ڈرامہ پی ٹی وی پر دکھایا لیکن لوگوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ڈرامے کا پانچواں سیزن چل رہا ہے لیکن لوگوں کو اب تک یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ترقی حاصل کرنے کے لیے گیس بجلی اور پٹرول کا ہونا بالکل بھی ضروری نہیں۔ بس ارطغرل جیسا ایماندار اور ہینڈ سم قائد ہونا چاہیے۔

قائی قبیلے میں کس کے پاس گاڑی تھی اور کون پٹرول ڈلواتا تھا؟ کیا حائمہ انا کے خیمے میں ریفریجریٹر ہوتے تھے اور کیا ارطغرل کے اوطاق میں ایر کنڈیشن چلتے تھے؟ کیا حلیمہ سلطان فور بائی فور گاڑی پر سفر کرتی تھیں؟ کیا اصلحان الیکٹرک اوون پر کھانا بناتی تھی؟ کیا بامسی بے سفر سے پہلے پٹرول تلاش کرنے نکلتا تھا؟ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ترقی کا جو را زیہ قوم ڈرامے سے نہ پا سکی وہ راز سمجھانے کے لیے عمران خان صاحب اب قدرے مشکل فیصلے لے رہے ہیں لیکن اس میں بھلا قوم کا ہی ہے۔ قائی قبیلہ اگر گیس بجلی اور پٹرول کے بغیر دنیا کے تین بر اعظموں پر حکومت کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا۔ دنیا میں رفعتیں مادی ترقی سے نہیں روحانی ترقی سے ملتی ہیں۔

یہ فیصلہ اب آپ کا ہے آپ نے کپتان کے بغض کی آگ میں جلنا ہے یا مثبت پہلوئوں پر توجہ دینی ہے۔

Check Also

Nat House Mein Jashn Aur Abid Raza Kotla Ki Khamoshi

By Gul Bakhshalvi