مہنگائی کہاں ہے؟
یا قربان، رستم جیسی وجاہت سے جناب پرویز خٹک نے للکارا ہے کہ مجھے دکھائو مہنگائی کہاں ہے اور کس بے بسی سے مہنگائی مہنگائی کرنے والے اب بغلیں جھانک کر شرمندہ ہو رہے ہیں کہ وہ ٖ اپنے ضعف بصارت اور بغض کی وجہ سے دودھ اور شہد کی بہتی نہروں کو مہنگائی سمجھ بیٹھے تھے۔ اب جھوٹ پکڑا گیا ہے تو کیا جواب دیں؟
ہاں تو صاحب مہنگائی کہاں ہے؟ گیس، بجلی، پٹرول، ادویات، آلو، مٹر، گاجر، ٹماٹر، بھنڈی، کدو، کریلا، گوشت، سیب وغیرہ کی قیمتیں ضرور بڑھی ہوں گی لیکن مہنگائی کہاں ہے؟ ہو سکتا ہے ان اشیاء کی پرائس لسٹ دیکھ کر آپ حسرت لیے گھروں کو لوٹ جاتے ہوں گے لیکن سوال آپ کی حسرت کا نہیں سوال تو مہنگائی کا ہے؟ کیا کہین کسی دکان پر آپ کو مہنگائی بھی نظر آئی اور کیا آپ بتا سکتے ہیں اس کا رنگ کیسا تھا، گول تھی یا چوکور تھی اور کلو کے حساب سے دستیاب تھی یا درجن سے؟ ایک چیز آپ نے دیکھی نہیں اور آپ شور مچا رہے ہیں کہ مہنگائی ہے مہنگائی ہے۔ بغض کی بھی حد ہوتی ہے صاحب۔
کیا ہوا کہ وطن عزیزز میں روپے کی ناقدری میں اضافہ ہوا اور لوگ بیٹھے بیٹھے دولت سے محروم ہو گئے۔ کیا ہوا کہ افراط زر کی شرح جو 2018 میں چار فیصد سے بھی کم تھی دو سالوں میں بڑھ کر دس فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی۔ لیکن سوال افراط ز ر کا نہیں سوال مہنگائی کا ہے۔ کوئی ہے جو بتا سکے کہ مہنگائی کہاں ہے؟
جس روز پرویز خٹک للکار رہے تھے کہ مہنگائی کہاں ہے اور غربت کدھر ہے اسی روز ورلڈ بنک بتا رہا تھا کہ اس سال پاکستان میں غربت میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ تو غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں مہنگائی کہاں ہے؟
اس ایک سال میں ورلڈ بنک کے اعدادو شمار کے مطابق 20 لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ لیکن یہ تو ان لوگوں کا اپنا قصور ہوا۔ انہیں کرونا کے ایام میں گھر سے نکلنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ان لوگوں کو نئے پاکستان میں رہنا چاہیے تھا۔ یہ گھر سے نکلے اور خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ اب وہاں کے حالات اچھے نہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور؟
ورلڈ بنک کے مطابق اس وقت پاکستان میں غربت کی شرح 39 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ لیکن غربت کی شرح بڑھنے کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے۔ ورلڈ بنک کے " پٹواری" اگر سچ کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتے ہیں تو اعدادو شمار جاری کرنے کی بجائے جناب پرویز خٹک کے ساتھ ذرا کے پی کے کا دورہ فرما کر انہیں دکھائیں کہ یہ غربت جا رہی ہے۔
مہنگائی اور غربت کا پیمانہ بھی صاحب نے خوب بتایا۔ فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ آ کر مجھے دکھائو کتنے لوگ کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ یعنی غربت جانچنے کا معیار اب یہ ہے کہ کتنے لوگ کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی اداروں کو چاہیے وہ غربت کی اپنی پرانی تشریحات کو چولہے میں ڈالیں اور اگر ان ممالک میں چولہا دستیاب نہ ہو تو اوون میں رکھ کر جلا دیں۔ اب جدید دور ہے اور غربت کی ڈیجیٹل تشریح بیان فرما ئی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کو بھی فوری طور پر اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ جب ملک میں مہنگائی اور غربت کہیں موجود ہی نہیں تو احساس پروگرام کے لیے 260 ارب روپے مختص کرنا کا فیصلہ ناقابل فہم ہے۔ جس ملک کے وزیر دفاع ایوان میں کھڑے ہو کر چیلنج دے رہے ہوں کہ مجھے دکھائو، مہنگائی اور غربت کہاں ہے اور حکومتی بنچوں سے ڈیسک بجا بجا کر انہیں داد دی جا رہی ہو اس حکومت کو غریبوں کی کفالت وغیرہ کے لیے اتنی خطیر رقم مختص کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ یہ رقم کہاں خرچ ہو گی؟ یہ کون لوگ ہیں جن کے لیے دسترخوان پروگرام بنایا گیا ہے؟ غربت تو ہے ہی نہیں تو وزیر اعظم بار بار کیوں کہتے ہیں کہ کوئی بھوکا نہ سوئے؟ اگر کوئی امیر آدمی ڈائٹ پلان کے تحت بھوکا سو رہا ہے تا کہ دو چار ماہ بعد وہ وزیر دفاع کی طرح سمارٹ اور ہینڈ سم نظر آئے تو وزیر اعظم کیوں پریشان ہیں۔
کچے مکان ہی اگر غربت جانچنے کا معیار ہیں تو کیا یہ سارے مکان موجودہ دور حکومت میں پختہ ہوئے؟ اگر یہ پہلے ہی سے پختہ تھے تو تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں مہنگائی اور غربت کو فوکس کیوں کیاتھا؟ اس وقت پرویز خٹک صاحب کو غربت اور مہنگائی کس محلے اور کس شہر میں نظر آتی تھی جو اب نہیں آتی؟
اقتدار بڑی ظالم چیز ہے۔ جب نصف درجن اہل خانہ ایوان میں موجود ہوں، آدمی وفاقی وزیر ہو، اس کے جملہ خرچے سرکاری خزانے سے پورے ہوتے ہوں۔ تاحیات اسے اور اس کے اہل خانہ کو قومی خزانے سے میڈیکل کی سہولت مفت میں میسر ہو، تنخواہ کے علاوہ الاونسز کا انبار اسے ہر ماہ مل جاتا ہو، اجلاس میں شرکت کی آنیاں جانیاں بھی قومی خزانے سے پوری ہوتی ہوں، وزراء کالونی میں رہائش کے علاوہ ہائوس رینٹ کی مد میں بھی الائونس مل جاتا ہو، سمچیوری الائونس، ایڈ ہاک ریلیف، ڈیلی الائونس، کنوینس الائونس سمیت ایسے ایسے مزے ہوں جن کے عام آدمی نے زندگی میں کبھی نام ہی نہ سنے ہوں تو اسے غربت اور مہنگائی کہاں سے نظر آئے گی۔ ایسے موسم میں تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
معاشی مشکلات کی وجہ سے مہنگائی اور غربت کا کوئی حکومت جواز پیش کرے تو کسی درجے میں بات سمجھ میں آتی ہے کہ محدود وسائل میں حکومت ایک حد سے ز یادہ کچھ نہیں کر سکتی لیکن یہاں تو غربت اور مہنگائی کا وجود ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اب یہاں نہ کوئی غریب ہے نہ یہاں کوئی مہنگائی ہے۔ سب مسکینوں کے گھر پختہ ہو چکے ہیں اور سب کی ڈیوڑھی میں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ہر محلے میں دودھ کی دو اورشہد کی چار نہریں بہہ رہی ہیں۔ تبدیلی اور کسے کہتے ہیں؟ وہ دیکھو پورا ہوا جو خواب تھا کپتان کا۔