مارگلہ: جنگل کاٹ کر ہائوسنگ سوسائٹی بنالیں
اب ایسا کیجیے جنگل کاٹ پھینکیے اور یہاں ایک ہائوسنگ سوسائٹی بنا لیجیے۔ کنکریٹ کے اس شہر کو ندیوں، چشموں، پھولوں، تتلیوں، لومڑیوں کی کیا حاجت۔ سب کے ذہن میں کنکریٹ بھرا ہے۔ پتھر کے شہر کو پتھر ہی راس آئیں گے، یہ افتاد طبع کا معاملہ ہے۔ رات مارگلہ کے پہاڑ کے ساتھ ساتھ ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھا پہاڑ تین جگہوں سے جل رہا تھا۔ یہ عین وہی وقت تھا جب ٹوئٹر پر ضلعی انتظامیہ کا یہ دعوی فلیش ہو رہا تھا کہ 90 فیصد آگ پر قابوپا لیا گیا ہے۔ باقی کا راستہ یہی سوچتے کٹ گیا کہ اگر دس فیصد آگ کے شعلوں میں یہ تندی ہے کہ پورا اسلام آباد انہیں دیکھ رہا ہے تو پہاڑ کے پیچھے جس 90 فیصد آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، اس کی تباہ کاریوں کا عالم کیا ہو گا۔ یہ سوچ کر سو رہا کہ صبح میڈیا سے معلوم ہو جائے گا کتنا کچھ جلا اور کیا کچھ بچ گیا۔
صبح اٹھا تو خیال تھا اخبارات اس آگ کی خبروں اور تبصروں سے بھرے ہوں گے اور اس غفلت پر آج حکومت کی خیر نہیں۔ کتنے ہی اخبارات اٹھا کر دیکھے، صفحہ اول پر کہیں سرے سے کوئی خبر ہی نہیں تھی کہ مارگلہ نیشنل پارک جل رہا ہے۔ آخری صفحات دیکھے تو وہاں بھی مایوسی ہوئی۔ شہر اقتدار میں یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہ تھی کہ جنگل جل گیا اور پرندے اور گھونسلے راکھ ہو گئے۔
اسلام آباد کے مقامی ایم این ایز کے بیانات کی تلاش میں، مقامی خبروں والے صفحات بھی توجہ سے پڑھے لیکن اسلام آباد کے کسی منتخب نمائندے کے لیے بھی جنگل کا جل کر راکھ ہو جانا کوئی مسئلہ نہ تھاکہ دو سطری پریس ریلی ہی جاری کر دی جاتی۔
خیال تھا کہ شاید جمعے کے روز قومی اسمبلی میں جنگل کی آگ ز یر بحث آئی ہو۔ خبر کی تلاش میں ناکامی ہوئی تو معلوم ہوا اس روز تو کورم ہی پورا نہیں ہو سکا تھا۔ معز اراکین سرکاری خرچ پر تشریف لائے اور کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے بغیر کچھ کیے واپس چلے گئے۔ یہ قوم کے اکابرین ہیں ان کے کورم پورے ہوں یا نہ ہوں، غریب قوم سے اپنی آنیوں جانیوں کے پیسے یہ پورے وصول کرتے ہیں۔ مراعات ان کی ہوش ربا ہیں۔ جیسے مال غنیمت لوٹا جا رہا ہو لیکن مبینہ طور پر آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترنے والے یہ رجال کار جلتے جنگل کو دیکھ کر کچھ کہے بغیر گھروں کو لوٹ گئے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تمہارے کورم کیوں پورے نہیں ہوتے۔
اہل صحافت چاہیں تو ایران توران کی خبریں لے آئیں۔ دنیا میں کہیں کوئی واقعہ ہو دس منٹ پر کوئی سینیئر تجزیہ کار پٹاری لے کر آن لائن آ جاتا ہے کہ اندر کی بات میں آپ کو بتاتا ہوں۔ امریکی صدر رات سوتے ہوئے خواب میں کیا دیکھتے ہیں وہ بھی ان تجزیہ کاروں کو معلوم ہو جاتا ہے اور دنیا کے ہر واقعے کا انہیں یوں علم ہوتا ہے جیسے جائے وقوعہ پر کسی میزکے نیچے چھپ کر سب سن رہے تھے لیکن پہلو میں جلتے جنگل اور اس میں جھلس کر مر جانے والی جنگلی حیات کے بارے میں یہ " اندر " کی کوئی خبر دے سکے نہ " باہر" کا کوئی انکشاف انگیز تجزیہ پیش کر سکے۔
پھر ایک خیال آیا کہ شہر اقتدار میں ایک عدد سول سوسائٹی موجود ہے، یقینا وہ اس موقع پر تڑپ کر باہر نکلی ہو گی کہ ہمارا جنگل اور بے زبان مخلوق کس نے جلائی۔ یقینا اس نے حکومت کا ناطقہ بند کر دیا ہو گا کہ معصوم پرندوں اور جانوروں پر بیتی اس قیامت کا حساب دے۔ اخبارات الٹ پلٹ کر دیکھ لیے اور بیٹ رپورٹرز سے بھی پوچھ لیا کہ کہیں آپ کو سول سوسائٹی نامی محترمہ نظر آئی ہوں، تو مطلع فرمائیں۔ لیکن مایوسی ہوئی۔ دیکھتی آنکھوں نے اسے کہیں نہیں دیکھا تھا۔
مایوسی کے عالم میں اس خیال نے آ کر تھام لیا کہ اور کوئی بولے یا نہ بولے اہل مذہب ضرور بولے ہوں گے کہ وہ جانتے ہیں اسلام میں درخت اگانے کو صدقہ جاریہ کہا گیا ہے، پرندوں اور جانوروں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ لیکن کہیں ان کا بھی کوئی بیان نظر سے نہ گزرا۔ اندیشے نے آن لیا کہ وہ یقینا بولے ہوں گے اور خطبات جمعہ میں اس پر بات بھی کی ہو گی لیکن شاید میڈیا میں رپورٹ نہ ہو سکی ہو۔ جہاں جہاں تک رابطے تھے فون کر کے پوچھا کہ شہر میں کہیں، کسی مسجد میں، کسی شعلہ بیاں مقرر نے جنگل کی آگ پر بات کی ہو اور حکومت کو بتا دیا ہو کہ وہ سرکاری خطبے نہیں پڑھیں گے بلکہ اپنے شعوری رائے کا ابلاغ کیا کریں گے۔ لیکن یہاں بھی مایوسی ہوئی۔ جنگل کسی کا موضوع نہیں تھا۔ کسی مجرم کو ہتھ کڑی لگنے پر بے تاب ہو جانے والی اسلامی نظریاتی کونسل بھی دہی کے ساتھ کلچہ کھاتی رہی۔
بار ایسوسی ایشن کی جانب خیال گیا جو چھاننے پر آجائے تو مچھروں کو چھان ڈالتی ہے۔ سوچا شاید دارالحکومت کی بار نے اپنے جلتے ہوئے جنگل کو دیکھ کر اس کے تحفظ کے لیے بنائے گئے خصوصی قوانین کو موضوع بنایا ہو اور حکومت پر گرفت کی ہو کہ قانون کیسے اور کیوں پامال ہو رہا ہے لیکن یہ بھی خیال خام ہی ثابت ہوا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بھی کوئی خبر نہ مل پائی۔
پورے شہر میں کوئی آواز نہ اٹھ سکی۔ کہیں کوئی احتجاج نہ ہو سکا۔ کوئی پریس کانفرنس نہ کی جا سکی۔ ٹوئٹر پر کوئی ٹرینڈ نہ چل پایا۔ کنکریٹ کے شہر کے مکین کسی پتھر کی طرح لاتعلق رہے۔ بیوروکریٹ کانوں میں ہینڈ فری لگائے شالیمار گرائونڈ میں واک فرماتے رہے اور ان کے سر پرجنگل جلتا رہا۔ پیٹ سے دیکھنے اور پیٹ سے سوچنے والے اس شہر کو ندیوں، چشموں، پرندوں، لومڑیوں اور ہرنوں کی کیا ضرورت۔ ان کے ذہنوں میں کنکریٹ بھرا ہے۔
اب ایسا کیجیے جنگل کو کاٹ کر پھینک دیجیے، یہاں ہائوسنگ کالونی بنائیے اور فارم ہائوسزعہدوں کے مطابق اشرافیہ میں بانٹ دیجیے۔ جنگل میں کیا رکھا ہے، رئیل اسٹیٹ کی تو شان ہی نرالی ہے۔ اس کے دربار میں تو سبھی فرشی سلام کرتے حاضر ہوتے ہیں اور من و تو کی تمیز مٹ جاتی ہے۔