Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Margalla Day

Margalla Day

مارگلہ ڈے

دوپہر اترنے والی ہے۔ جنگل میں سناٹا ہے۔ راستوں کو چُپ سی لگی ہے۔ خشک ندی کے اس پار ایک سرمئی رنگ کی لومڑی دنیا سے بے نیاز، زمین پر منہ رکھ کر لیٹی ہے۔ رات مینہہ برسا تھا، اب زمین میں ہلکی ہلکی نمی ہے۔ یہ لومڑی شاید اسی نمی کو وجود میں اتارنے بیٹھی ہے۔ آنکھیں کھولتی ہے، بے نیازی میں لپٹی لاتعلقی سے ادھر ادھر دیکھتی ہے اور پھر آنکھیں موند لیتی ہے۔

اس کے اوپر دو چار تتلیاں اٹکھیلیاں کر رہی ہیں، ایسے ہی جیسے گھروں میں بیٹیاں کھیلتی ہیں۔ رات کی ہلکی بارش کی وجہ سے جنگل سے دھیمی دھیمی سے مہک اٹھ رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے یاد آیا کہ آج تو ارتھ ڈے، ہے۔ رمضان کے دنوں میں جنگل کی طرف کوئی نہیں آتا۔ جنگل خاموش ہوتا ہے۔ زمین کا دن منانے کے لیے اس سے شاندار ماحول بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔

جنگل کا حسن تب تک ہے جب تک وہ انسانوں کی نامعقولیت سے بچا رہے۔ جہاں انسان پہنچتا ہے، کوڑا اور غلاظت چھوڑ جاتا ہے اور زبانِ حال سے زمین کو بتا جاتا ہے کہ کوئی بے زبان جانور اس غلاظت کا سبب پوچھے تو کہنا انسان آیا تھا۔

اعدادو شمار میں اختلاف موجود ہے لیکن معتبر اداروں کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریب 5 کروڑ ٹن فضلہ اور کوڑا پھینکا جاتا ہے اور اس میں ہر سال تین فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیں سیاست اور اس سے جڑے سطحی اور بے مغز موضوعات سے فرصت ملے تو ہم سوچیں کہ یہ آخر جاتا کہاں ہے اور چند سالوں بعد ہمارا انجام کیا ہونے جا رہا ہے؟

لوگ جنگل میں آتے ہیں، بسکٹ، چپس اور سلانٹیاں کھا کر ان کے ریپر جنگل میں پھینک دیتے ہیں۔ جاتے ہوئے کولڈ ڈرنکس اور منرل واٹر کی بوتلیں لے جاتے ہیں واپس آتے ہوئے انہیں جنگل میں پھینک دیتے ہیں۔ انہیں شرم دلانے کے لیے جنگل میں جا بجا پیغامات لکھ کر لگائے گئے ہیں لیکن اس قوم کی تربیت میں شاید کہیں کوئی بہت بڑی کمی رہ گئی ہے، میرے مشاہدے کی حد تک یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء اور طالبات مارگلہ میں غلاظت پھیلانے والوں میں سب سے آ گے ہیں۔

یہ گروہ در گروہ آتے ہیں اور شاپنگ بیگ، ریپر اور پلاسٹک کی بوتلیں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ قدم قدم پر یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ گھر سے اگر تربیت میں کمی رہ جائے تو مہنگے تعلیمی اداروں کی ڈگریاں اس کمی کو دور نہیں کر سکتیں۔

مرغ سیمیں مارگلہ کا سب سے حسین تحفہ ہے۔ اس کے پروں میں قدرت نے قوس قزح سجا رکھی ہے۔ سر پر کسی بادشاہ کے تاج جیسی قلغی ہے۔ ایسے نزاکت سے قدم اٹھا کر چلتا ہے جیسے کوئی عثمانی سلطان لشکر گاہ کا معائنہ کر رہا ہو۔ اس کی تخلیق میں قدرت نے ایسا حسن رکھا ہے کہ وہ کبھی آپ کو دیکھ کر بھاگے بھی تو ایسے بے ہنگم انداز سے نہیں بھاگ پڑتا اسی شان اور نزاکت سے بھاگتا ہے۔ ایک روز دوپہر کے وقت بوہڑی کے چشمے کے پاس بیٹھا تھا کہ ووائلڈ لائف کے دو اہلکار گزرے۔

ایک کے ہاتھوں پر مرغ سیمیں رکھا تھا۔ وہ مر چکا تھا۔ اس نے شاید کسی شاپنگ بیگ میں بچی ہوئی کھانے کی کسی چیز کو چونچ ماری تھی یا کیا ہوا تھا لیکن اس کی قلغی اور منہ کے گرد شاپنگ بیگ لپٹا ہوا تھا اور چیونگم یا کسی اور چیز کی وجہ سے وہ اس لے لپٹ بھی گیا تھا۔ کسے معلوم، معصوم جان نے مرنے سے پہلے اس لعنت سے نجات کے لیے کتنی تگ و دو کی ہوگی۔

ایک شاپنگ بیگ اور پلاسٹک کی ایک بوتل کو، جو ہم بے خیالی سے جنگل میں پھینک جاتے ہیں، زمین میں حل ہونے کے لیے ساڑھے چار سو سال درکار ہوتے ہیں۔ کپڑے کے تھیلوں سے ہم "پینڈو" لگتے ہیں اس لیے شاپنگ بیگ کی لعنت ہم نے اپنے لیے ناگزیر کر رکھی ہے۔ چند روز حکومت نے شاپنگ بیگز کے خلاف مہم چلائی اور پھر جب سوشل میڈیا پر تاثر قائم ہو گیا تو اس کے بعد کسی وزیر کو یاد ہی نہ رہا کہ اس سلسلے میں ہماری کوئی پالیسی بھی تھی۔ جب اولین ترجیح سماج کی بجائے سوشل میڈیا بن جائے تو اچھے کام بھی ایسے ہی اپنی معنویت کھو دیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعدادو شمار حیران کر دیتے ہیں اور دکھ وجود سے لپٹ جاتا ہے۔ اعدادو شمار یہ ہیں کہ دنیا میں ہر سال15 ارب درخت کاٹے جا تے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کچھ عرصے کے بعد اس دنیا کا حال کیا ہو گا۔ کبھی کراچی جیسے شہر کا فضائی منظر دیکھیے یوں لگتا ہے شہر میں کوئی درخت ہی نہیں۔

بچپن میں پڑھا تھا کہ کس بھی ملک کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن پاکستان میں صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں اور یہ تناسب بھی دن بدن گھٹ رہا ہے۔ ورلڈ وائلڈ لائٖف فنڈ کے مطابق جنگلات کی کٹائی اور بربادی کے حوالے سے ایشیا میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے اور اس سے بد تر صورت حال صرف ایک ملک میں ہے اور وہ افغانستان ہے۔

پاکستان میں جو تھوڑے سے جنگل بچ گئے ہیں ان میں سے ایک مارگلہ ہے۔ اس کی کہانی بھی دردناک ہے۔ طاقتور طبقات نے جنگل کاٹ کر قبضے کیے ہوئے ہیں اور ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود اصلاح احوال ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ شکر پڑیاں بھی مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ ہے۔

اسکے جنگل میں ابھی دس پندرہ سال پہلے تک لومڑیاں ہوا کرتی تھیں اور ہم پورے چاند کی راتوں میں جب کنول جھیل کے کنارے پر جا بیٹھتے تھے تو چاند نہاتی جھیل کے کناروں پر سرمئی لومڑیاں بھی دکھائی دیتی تھیں۔ اب ذرا جا کر دیکھیے نیشنل پارک کے اس جنگل میں کتنے سرکاری دفاتر، کتنی سرکاری عمارات اور کتنے سرکاری رہائشی کوارٹر قائم ہو چکے۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ پاکستان کے قانون کے تحت نیشنل پارک میں کوئی عمارت قائم نہیں ہو سکتی۔

جنگل جب انسان سے محفوظ ہو توو وہ کتنا حسین ہو جاتا ہے اس کا اندازہ درہ کوانی میں جا کر ہوتا ہے۔ یہ مارگلہ کا وہ علاقہ ہے جہاں تیندوے رہتے ہیں۔ اس علاقے کو بند کر دیا گیا ہے اور لوگوں کی آمدو رفت یہاں منع ہے۔ کبھی کبھار یہاں جاتا ہوں تو ندی، پگڈنڈی اور چراگاہوں کو حیرت سے دیکھتا رہتا ہوں کہ جنگل اتنا خوبصورت بھی ہو سکتا ہے۔

یہ علاقہ چونکہ انسانوں سے محفوظ ہے تو اس کا حسن بھی قائم ہے۔ پہلی ندی عبور کریں تو لگتا ہے صدیوں پرانے کسی جنگل میں آ گئے ہیں۔ نہ کوئی شاپنگ بیگ، نہ کوئی ریپر نہ کوئی پلاسٹک کی بوتل نہ ہی کوئی انسان۔۔ فطرت یہاں بے حجاب پھرتی ہے۔

دنیا ارتھ ڈے منا رہی ہے اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کیا یہ ممکن ہے کہ ہر سال 22 اپریل کو جب دنیا ارتھ ڈے منا رہی ہو تو اسی جزبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلام آباد میں مارگلہ ڈے منایا جائے؟ پورا شہر مل کر یہ عہد کرے کہ اس جنگل کو بچانا ہے جس میں آج بھی لومڑیاں، ہرن اور تیندوے رہتے ہیں اور جس کی ندیوں کا پانی آج بھی موتیوں کی طرح دمکتا ہے۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad