محمود اچکزئی پی ڈی ایم کا اثاثہ ہیں یا بوجھ؟
سوال یہ ہے کہ محمود اچکزئی صاحب کا مسئلہ کیا ہے؟ ان کی فکری استعداد ہی اتنی ہے؟ نفرت کی سیاست نے ان کا توازن چھین لیا ہے؟ یا پھر وہ ایجنڈے پر ہیں؟ آخری تجزیے میں وہ خود پی ڈی ایم کے لیے ایک اثاثہ ہیں یا محض ایک بوجھ؟
ان حالات میں جلسہ کرنا معمولی بات نہیں۔ جان کھپانا پڑتی ہے تب ایک جلسہ کامیاب ہوتا ہے۔ کارکنان کی توانائی اور غیر معمولی وسائل صرف ہوتے ہیں۔ سرد موسم اور کورونا نے جلسوں کے انعقاد کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اتنی محنت کے بعد جلسہ ہوتا ہے تو اس کا ایک بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگلے کچھ روز قومی سیاسی بیانیے میں اس جلسے پر بات ہو اور ایک ماحول بنے۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ اچکزئی صاحب ایک مہمان مقرر کے طور پر تشریف لاتے ہیں، درجن بھر کارکن ساتھ نہیں ہوتے، جلسے پر ان کے دو روپے خرچ نہیں ہوئے ہوتے لیکن وہ ایک ادائے بے نیازی سے آتے ہیں اورکوئی ایسی درفنطنی چھوڑ دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے لیے عذاب کھڑا ہو جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ایک بڑے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کا موقف زیر بحث آئے، پی ڈی ایم کے کارکنان گلی کوچوں میں وضاحتیں دیتے پھرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی ساری محنت پر یہ صاحب پانی پھیرتے ہیں، چادر اوڑھتے ہیں اور چل دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ صاحب پی ڈی ایم کے لیے خیر ہیں یا زحمت؟ پی ڈی ایم کی تحریک، پی ڈی ایم کے بقول آئین کی بالادستی کی تحریک ہے۔ حکومت کا بیانیہ یہ ہے کہ یہ ملک دشمن تحریک ہے۔ فردوس عاشق اعوان اس بیانیے کی شرح بیان کر چکی ہیں کہ ایسا الزام اس لیے نہیں لگایا جاتا کہ اس میں حققیقت ہوتی ہے بلکہ یہ اس لیے لگایا جاتا ہے کہ ہماری سیاست میں یہ الزام کارگر ثابت ہوتاہے۔ سیاست میں، امر واقع یہ ہے کہ، تاثر حقیقت سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ یہ پی ڈی ایم کے سوچنے کا مقام ہے کہ محمود اچکزئی کس کے بیانیے کو فروغ دینے کا باعث بن رہے ہیں؟ ان کی جملہ کاوشوں نے پی ڈی ایم کے بیانیے کو تقویت دی ہے یا تحریک انصاف کے بیانیے کو؟
ایک تحریک چل رہی ہے جو مختلف شہروں میں جا رہی ہے تا کہ اپنا پیغام پہنچائے۔ تحریک کا قافلہ کراچی پہنچا تو اچکزئی اردو پر چڑھ دوڑے۔ یہ ایک دو طرفہ حملہ تھا، قومی زبان پر بھی اور اردو بولنے والوں کے جذبات پر بھی۔ چنانچہ اگلے کئی روز پیپلز پارٹی کراچی میں وضاحتیں دیتی رہی۔ قافلہ لاہور پہنچا تو اچکزئی صاحب اہل لاہور پر طعنہ زن ہو گئے اور ان دنوں کا طعنہ دے مارا جب ابھی پاکستان ہی نہیں بنا تھا۔ اب کی بار بیک فٹ پر مسلم لیگ ن ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت بھی سوچ تو رہی ہو گی کہ یہ کیسا مہمان ہے جہاں جاتا ہے اپنے میزبانوں کی تذلیل کرتا ہے اور مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ ازرہ مروت وہ یہ سوال بھلے نہ پوچھیں کہ میاں بتاوئو تو سہی تم ہو کس کے ساتھ۔
آدمی قومی سیاست کا ایک کردار ہو تو اس میں اتنی بصیرت ہونی چاہیے کہ اسے معلوم ہو جلسے لوگوں کو مسخ شدہ تاریخ پڑھانے کے لیے نہیں ہوتے، یہ لوگوں کو ہمنوا اور ہم سفربنانے کے لیے ہوتے ہیں۔ اچکزئی صاحب کے خطابات نے پی ڈی ایم کو کیا دیا؟ جہاں جاتے ہیں نفرت کا ڈھیر چھوڑ آتے ہیں۔ سوال وہی ہے: ان کی فکری استعداد ہی اتنی ہے؟ نفرت کی سیاست نے ان کا توازن چھین لیا ہے؟ یا پھر وہ ایجنڈے پر ہیں؟
اچکزئی صاحب کے جواب آں غزل میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ انہیں بتایا جا سکتا ہے کہ اگر پنجاب میں انگریزوں کے وفادار تھے تو بلوچستان نے بھی وہ منظر دیکھا تھا جب انگریز وائسرائے کی بگھی میں سے گھوڑے نکال کر سردار اور نواب اس میں جت گئے تھے۔ پنجاب کو سکھوں کا طعنہ دینے والوں کو یاد دلایا جا سکتا ہے کہ سکھوں کے خلاف لڑنے والے شہدائے بالاکوٹ سے غداری لاہوریوں نے نہیں کی تھی، آپ کے خوانین نے کی تھی۔ انہیں بتایا جا سکتا ہے کہ لاہور والوں نے کبھی افغان وطن تاراج نہیں کیا، یہ ادھر سے آنے والے لٹیرے تھے جنہوں نے لاہور کو تاراج کیا۔
میرا ارادہ بھی تھا کہ اس پر لکھوں لیکن یہ سوچ کر رک گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو اچکزئی صاحب کا ایجنڈا ہی یہی ہو کہ ان کی نفرت کے جواب میں ہم پاکستانی بن کر سوچنے کی بجائے پنجابی بن کر سوچنے لگیں اور جواب میں وہی زبان اور لہجہ اختیار کریں جو اچکزئی صاحب نے کیا۔ ابتدائی طور پر میں نے فیس بک پر کچھ پوسٹس کی تھیں، یہ خیال آیا تو ڈیلیٹ کر دیں۔ پٹھان اگر اس پر خوش ہیں کہ وہ پنجابی سے بہتر ہیں تو میں ان سے الجھوں گا نہیں، بلکہ میں چاہوں گا وہ مجھے بھی اس خوشی میں شریک کر لیں۔ ہم قوم پرستوں کی وکٹ پر نہیں کھیلیں گے۔ ہم پنجابی مسکرا کر کہیں گے کہ بہت اچھا آپ پشتون کل بھی ہم سے اچھے تھے اور آج بھی ہم سے اچھے ہیں۔ اور کچھ؟
قوم پرستوں کی نفرت کا آزار تھمنے میں نہیں آ رہا۔ انہیں چاہیے مرحوم باچا خان کا وہ انٹرویو پڑھیں جو انہوں نے انڈیا ٹوڈے کو دیا تھا اور 31 مارچ 1980 کے انڈیا ٹوڈے کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ جلال آباد میں مقیم تھے۔ انہوں نے کہا کہ علاج کے لیے وہ بھارت جانا چاہتے تھے لیکن افغانستان حکومت نے اجازت نہ دی۔ پشتونستان کے سوال پر باچا خان کا جواب بہت اہم اور غیر معمولی تھا۔ انہوں نے کہا؛" پشتونستان کے مسئلے پر افغان حکومتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ہمارا استحصال کیا۔ ہمارے لوگوں نے اس کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا۔ دائود نے پشتونستان پر بات کرنی ہی چھوڑ دی تھی اور ترکئی نے بھی یہ ایشو صرف اس لیے اٹھایا کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا"۔ ( یہ انٹر ویو آج بھی انڈیا ٹوڈے کی سائٹ پر موجود ہے)۔ قوم پرستوں نے کون سی کسر چھوڑی، وہ تو یہ ہوا کہ افغان حکومت نے انہیں اپنے مفاد میں حسب ضرورت استعمال کیا اور پھر حسب ضرورت چھوڑ دیا۔ قوم پرستوں نے مگرافغان وطن کی مہربان حکومت کا غصہ آج تک پاکستان پر ہی نکالا ہے۔
وفاق باہمی احترام سے مضبوط ہوتا ہے، ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے نہیں۔ پی ڈی ایم کو سوچنا چاہیے محمود اچکزئی ایک اثاثہ ہیں یا بوجھ؟