Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Kya Zalmay Khalilzad Pakistan Ke Chief Election Commissioner Hain?

Kya Zalmay Khalilzad Pakistan Ke Chief Election Commissioner Hain?

کیا زلمے خلیل زاد پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ہیں؟

زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کیا اور بتایا کہ پاکستان کو جون کے شروع میں انتخابات کرانے چاہییں۔ سوال یہ ہے کیا زلمے خلیل زاد پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ہیں؟

داخلی سیاست کی تلخیوں نے ملک کا یہ حال کر دیا ہے کہ اب افغان نژاد امریکی اہلکارہمیں بتا رہے ہیں کہ انتخابات کس مہینے میں ہونے چاہییں۔ زلمے خلیل زاد کا یہ بیان بتا رہا ہے کہ ہم نے اپنا کیا حال کر لیا ہے۔ سیاست کی سیاست دان جانیں کہ وہاں ہر گرہ اپنی کامل حمایت کے علاوہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں لیکن ایک پاکستانی شہری کے طور پر، جو سیاسی عصبیت سے بلند ہو کر سوچنے کی اہلیت رکھتا ہے اس سوال پر غور کرنا ہوگا کہ ہم کیا تھے، کیا ہو گئے ا ور کیا ہونے جا رہے ہیں؟

زلمے خلیل زاد کون ہیں؟ کیا وہ پاکستان کے شہری ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ وہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے۔ پڑھنے کے لیے امریکہ گئے تو وہیں کے ہو رہے۔ اقوام متحدہ میں ا مریکہ کے مندوب رہے۔ بش کے اقتدار میں پہلے افغانستان میں امریکہ کے سفیر رہے اور پھر عراق میں امریکی سفیر کے طور پر تعینات ہوئے۔ یعنی جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے یا ساتھ لے آئے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے پس منظر میں اور ان کی اس ساری مہارت میں یہ بات کہاں سے آ گئی کہ وہ پاکستا ن میں انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے پھریں۔

نہ تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے انہیں امور انتخابات میں اپنا ثالث بنایا ہے، نہ ہی پاکستان کا افغانستان یا امریکہ سے ایسا کوئی معاہدہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہ ہو پا رہا ہو تو پھرزلمے خلیل زاد کی دانش سے رہنمائی لی جائے گی۔ ایسے شواہد بھی کہیں دستیاب نہیں کہ اقوام متحدہ نے انہیں کوئی ایسی ذمہ داری دے رکھی ہو، او آئی سی کی جانب سے انہیں ایسا کوئی منصب عطا نہیں فرمایا گیا کہ وہ مسلمان ممالک کے داخلی امور کو اپنی بصیرت و دانائی سے نبٹا دیا کریں۔

یہ شواہد بھی کہیں دستیاب نہیں کہ وہ عالمی سطح پر پاکستانی سیاست کے ماہر تصور ہوتے ہوں اور ر الیکشن سے پہلے پاکستان میں اور دنیا بھر میں انہیں ماہر امور انتخابات کے طور پر ذرائع ابلاغ میں اہمیت دی جاتی ہو۔ سوال یہ ہے کہ پھر انہیں کیا پڑی کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں اپنی فہم و فراست کو گھسیڑنے کی کوشش کریں۔

اچھی ہے یا بری، پاکستان کی ایک اپنی جمہوری تاریخ ہے۔ ہم غلطیاں کریں یا ہم احسن انداز سے معااملات نبٹائیں، جب تک ان کا تعلق ہمارے داخلی امور سے ہے، کسی غیر ملکی کو اس پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کچھ حدودو قیود ہوتی ہیں اور ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ معلوم نہیں، ہمارے دفتر خارجہ نے ابھی تک زلمے خلیل زاد کے اس غیر ضروری ٹویٹ کا جواب کیوں نہیں دیا۔ حیرت تو یہ ہے کہ پی ڈی ایم سے تحریک انصاف تک کسی اہل سیاست کو بھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس کا جواب دیتا یا اس کی مذمت کرتا۔ کسی نے ایسا کچھ کیا ہے تو میرے علم میں نہیں۔

پاکستان کے تمام حلقوں کو یہ بات سمجھنے کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے داخلی معاملات میں کسی بیرونی قوت یا کسی اہلکار کو مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ یہ مداخلت کسی بھی عنوان سے ہے اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ کشمکش اقتدار کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، ایسے میں بیرونی مداخلت پر کبھی ایک گروہ سرشار ہو جاتا ہے تو کبھی دوسرا۔ لیکن جب چیزوں کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو مداخلت کسی کے لیے خیر نہیں ہوتی۔ ہر ریاست میں ایک ریڈ لائن ہوتی ہے۔ ہماری ریڈ لائن کیا ہے؟ جس کا جی چاہے کسی بھی چوک میں ہمیں کہنی رسید کر کے چلتا بنے؟

جب اپنے ملک میں چیزوں کو بازیچہ اطفال بن دیا جاتا ہے تو دوسروں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ آج یہ مداخلت تحریک انصاف کو اچھی لگ سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ کل کو وقت بدلے تو ایسی ہی کسی مداخلت کی خواہش پی ڈی ایم کرنے لگے۔ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچا جائے تو ہر دو صورتوں میں یہ مداخلت ایک نا مبارک، نا پسندیدہ اور نقصان دہ رہے گی۔

پاکستا ن کے جھگڑے پاکستان میں حل ہونے چاہییں، باہر نہیں۔ پاکستان کے تنازعات میں فیصلہ کن حیثیت آئین پاکستان کو ہونی چاہیے کسی غیر ملکی قوت کو نہیں ااور پاکستان میں فیصلہ کرنے کا حق پاکستان کی عدالتوں کو ہونا چاہیے کسی زلمے خلیل زاد یا بریڈلے شرمن کو نہیں۔ یہاں ملکی امور کی گتھیاں سلجھانے کے لیے مشاورت پارلیمان میں ہونی چاہیے، کیلیفورنیا کے اراکین سے نہیں۔

آئین میں لکھا ہے الیکشن اتنی مدت میں ہونے چاہییں تو الیکشن اتنی مدت میں ہونے چاہییں اور عدالت طلب کرے تو عدالت میں پیش ہونا چاہیے، مورچہ بند ہو کر قانون سے بالاتر ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہیے۔ ایک نیشن سٹیٹ حقوق اور ذمہ داریوں کے معاہدے کا نام ہوتا ہے، اسے محض حقوق کے مطالبے سے چلایا جا سکتا ہے نہ محض فرائض کی یاد دہانی سے۔ معاملات توازن ہی سے چلتے ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ یہاں اپنے اپنے علاقے، اپنا اپنا آئین اور اپنا اپنا وار لارڈ بٹھانا ہے یا اسے ریاست رہنے دینا ہے جہاں کوئی سپر مین نہیں ہوگا سب شہری ہوں گے۔ قانون پامال نہیں کریں گے، آئین پر عمل ہوگا اور ریاست کی عمل داری کا مذاق نہیں بنے گا۔

زلمے خلیل زاد کسی کا خیر خواہ نہیں، وہ حقوق انسانی کا مطلع کہے یا الیکشن کا مقطع، اس کی غزل کی زمین ہی دلدل ہے۔ ہم خلا پیدا کریں گے تو باہر سے کوئی اس خلا میں گھسنے کی کوشش کرے گا۔ وہ جب گھسے گا تو اس کے ہمراہ اس کا اپنا لائحہ عمل ہوگا۔ اس میں پاکستان کا آئین جمہوریت اور شخصی آزادیاں کہیں نہیں ہوں گی۔ ریاست کا بازو مروڑ کر یہ بیرونی دبائو کچھ اور چاہے گا۔ زلمے خلیل زاد کو اچانک حقوق انسانی یاد آ گئے تو اس کی وجہ انسان دوستی نہیں ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ زلمے خلیل زاد کا کوئی بیان مل جائے جو اس سے پہلے کسی سیاست دان کی گرفتاری پر ایسے ہی درد دل سے جاری کیا گیا ہو لیکن ناکامی ہوئی۔ حقوق انسانی کے ساتھ زلمے خلیل زاد کی اس نولومود محبت کا عنوان اور متن دونوں ہی سوالیہ نشان ہیں۔

سیاسی جھگڑے چلتے رہیں گے، عدالتیں موجود ہیں فیصلے بھی ہوتے رہیں گے، فیصلوں پر قانونی دائرے کے اندر رہ کر نقدو جرح بھی ہوتی رہے گی، دھوپ چھائوں کا سلسلہ بھی نیا نہیں ہے۔ البتہ اہل سیاست کو ایک بات بیٹھ کر طے کرنا ہوگی کہ اپنے معاملات خود حل کریں اور بیرونی مداخلت کی ہر شکل کی نفی کریں۔ نہ بریڈلے شرمن پاکستان کے وائسرائے ہیں نہ زلمے خلیل زاد پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر ہیں۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad