کیا سیاست اپنے اخلاقی وجود سے بے نیا ز ہو چکی؟
سیاست نا ممکنات میں سے امکان تلاش کرنے کا نام ہے لیکن ہماری سیاست نے پورے سماج کو بند گلی میں لا کھڑا کر دیا ہے۔ انتخابات اور ہیجان تو جڑواں ہیں۔ انتخابی ماحول میں پولرائزیشن کا جنم لینا ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن انتقال اقتدار کے بعدپولرائزیشن کی جگہ حکمت کو لے لینی چاہیے۔ انتخابات کے دوران سبھی حریف ہوتے ہیں لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد اہل اقتدار کا منصب حریف کا نہیں، گھر کے بڑے کا ہوتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت اپنی گروہی عصبیت کی اسیر ہو سکتی ہے لیکن وہی سیاسی جماعت جب اقتدار میں آ جائے توا س کی عصبیت کا مرکز کوئی ایک جماعت نہیں، پوری قوم ہونی چاہیے۔
چنانچہ منصب کا تقاضا تھا حکومت آگے بڑھتی اور حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی صورت نکالتی۔ لیکن حکومت اس تکلف کی روادار نہیں۔ حزب اختلاف نے بعض اہم مواقع پر قانون سازی کے عمل میں بن بلائے جا کر تعاون فراہم کیا اور قائد حزب اختلاف کو وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کا طعنہ دیا جانے لگا لیکن حکومت نے ایک قدم آگے بڑھا کر نہیں دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ تلخی اور تندی بڑھتی جا رہی ہے۔
اب پوری قوم باہم صف آراء ہے۔ ہر طبقہ فریق بن کر رہ گیا ہے۔ سیاست کے ز یر اثر سماج افراط و تفریط کا شکار ہوتا ہے تو اہل دانش اپنے فکری توازن سے اسے تھام لیتے ہیں لیکن یہاں اہل فکر و دانش بھی صف آراء ہیں۔ مستثنیات یقینا موجود ہیں لیکن معاشرے میں اہل قلم کا عمومی حوالہ بھی اب یہ ہے کون کس کے حصے کا دانش ور ہے۔ اہل قلم کی تحریریں، بالعموم، اب اس لیے نہیں پڑھی جاتیں کہ ان سے رہنمائی حاصل کی جائے بلکہ ان کی افادیت اب صرف اتنی ہے کہ فریقین میں کس کے حق میں کس نے کتنے دلائل پیش کیے ہیں۔ پذیرائی اور اختلاف کا تعین اب دیانت سے نہیں، عصبیت سے ہوتا ہے۔
ریاستی ادارے اس افراط و تفریط کو سنبھال سکتے ہیں لیکن سچ یا جھوٹ سے قطع نظر، دھول ایسی اڑی ہے کہ ریاستی ادارے بھی اس کی ز د میں ہیں اور انہیں بھی فریق تصور کیا جا رہا ہے۔ سول سوسائٹی سے متوازن رائے کی امید رکھی جاتی ہے کیوں کہ وہ کشمکش اقتدار میں حریف نہیں ہوتی لیکن اس کا توازن بھی لڑ کھڑا رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں منعقدہ تقریب میں کی گئی تقاریر اس پر شاہد ہیں۔ کچھ دوست ممالک بروئے کار آ جاتے تھے لیکن ایک تو یہ ویسے ہی کوئی مستحسن عمل نہیں کہ داخلی سیاست میں کوئی بیرونی قوت دخیل ہو اور پھر داخلی سیاست کے آزار نے دوست ممالک کے دامن کو بھی نہیں بخشا۔ اب اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ان میں سے کوئی بروئے کار آ سکے۔
اہل سیاست کو اس بات کا احساس نہیں کہ ان کا اخلاقی وجود اب برف کا باٹ ہے اور دھوپ میں رکھا ہے۔ مسائل کا کوہِ گراں ہے۔ معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ تعلیم و صحت سے لے کر قانون و انصاف تک، ہر شعبہ غیر معمولی اصلاحات کا طالب ہے لیکن پارلیمان کے پاس ملک کے سنجیدہ مسائل پر بات کرنے کے لیے وقت ہی نہیں۔ پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس پر اوسطا چار کروڑ خرچ آتا ہے لیکن غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کتنے ہی اجلاس محض اس لیے ملتوی ہو جاتے ہیں کہ کورم پورا نہیں ہو سکا۔ اور کورم بھی اس وقت ٹوٹتا ہے جب اراکین کی حاضری ایک چوتھائی سے بھی کم ہو۔
قوم کی تعمیر پارلیمان کا بنیادی موضوع ہونا چاہیے تھا اور نصاب تعلیم سے لے کر روزگار کے امکانات تک، ایک ایک مورچے پر پارلیمان کو بروئے کار آنا چاہیے تھا لیکن اس کا عمومی رویہ ان مسائل سے لاتعلقی کا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کچھ آسودہ حال لوگ وقت گارنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، تفریح طبع کے طور پر کچھ خطابات فرماتے ہیں اور گھر کو لوٹ جاتے ہیں۔
معیشت کیسے بہتر ہو گی۔ قرض کا بوجھ کیسے اترے گا۔ اس وقت ہمارے بجٹ میں قرض کی اقساط اور سود وغیرہ کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کا حجم دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ یہ سلسلہ کہاں رکے گا؟ کشمیر پر قومی پالیسی کیا ہونی چاہیے؟ افغانستان میں امکانات کیا ہیں اور خدشات کی نوعیت کیا ہے؟
بند گلی میں صرف دشنام کی سنگ زنی ہے اور الزامات کی دھول اڑ رہی ہیں۔ جمہوریت کا غلغلہ ہے لیکن کون سی سیاسی جماعت ہے جس کی اپنی صفوں میں جمہوریت ہو؟ ہر طرف یہی عالم ہے کہ پارٹی کے مناصب کے لیے الیکشن نہیں، نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ قیادت یہاں میراث میں آتی ہے اور پارلیمان کے دروازے عام آدمی پر عملا بند ہیں۔ عام آدمی کو انتخابات کے نام پر صرف اس بات کی آزادی ہے کہ چند حکمران خاندانوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ آمریت ہو یا جمہوریت، یہی خاندان اقتدار میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں جمہوریت اور پارلیمان کے ساتھ لوگوں کا رومان کیسے قائم ہو گا؟ چنانچہ جب عزیزہم وطنو، کی صدا پڑتی ہے۔ تو عوام پارلیمان اور جمہور کی بالادستی سے بے نیاز ہو کر دہی کے ساتھ قلچہ کھاتے رہتے ہیں۔
عمران خان کو ایک اخلاقی برتری حاصل تھی۔ بہت ساروں کے لیے وہ ایک خواب اور رومان تھے۔ ان سے لوگوں نے توقعات کا ہمالہ باندھ رکھا تھا۔ گماں تھا کہ وہ مختلف ثابت ہوں گے اور یقین تھا کہ بد ترین کارکردگی دکھائی تب بھی پہلوں سے بہتر ہی ہو گی۔ لیکن ان کے تین سال کے اقتدار کا حاصل یہ ہے کہ سارے خواب ہموار ہو چکے اور سارا رومان بکھر گیا۔ اب کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں۔ میدان سیاست میں سبھی ایک جیسے ہیں۔ انفرادیت اور اخلاقی برتری کے قصے تمام ہو چکے۔ سب مایا ہے۔ سب بند گلی میں ہیں اور سب کے ہاتھ میں پتھر ہیں۔
میرے جیسا عامی کھڑا سوچ رہا ہے کہ گریبان سے چاک جدا ہوتے ہوتے کچھ باقی بھی رہ پائے گا؟