خرابی معیشت میں نہیں، افسر شاہی میں ہے
ہر طرف معیشت زیر بحث ہے اور اصلاح احوال کی صورتیں تلاش کی جا رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خرابی ہماری معیشت میں نہیں، خرابی ہماری افسر شاہی میں ہے۔ جب تک افسر شاہی کو ٹھیک نہیں کیا جاتا معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ اس افسر شاہی کی موجودگی میں، آپ کے سارے پہاڑ سونے کے ہو جائیں اور آپ کے سارے دریائوں میں پٹرول بہنا شروع کر دے تب بھی ملک میں خوشحالی نہیں آ سکتی۔ یہ یاجوج ماجوج کے لشکرکی صورت سب کھا جائیں گے۔
ایسی باتیں، بالعموم، جذباتی قرار دے کر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی اتار کر دیکھ پائیں تو ہمیں معلوم ہو کہ یہ باتیں جذباتی باتیں نہیں ہیں، یہ عصر حاضر کا وہ مشاہدہ ہے جس کا ابطال ممکن نہیں رہا۔ بیوروکریسی ٹھیک ہوگی تو معیشت ہوگی۔ بیورووکریسی ٹھیک نہیں ہوگی توشاندار معیشت بھی چند سالوں میں اجڑ جائے گی۔
میرے سامنے محترم جناب ڈاکٹر علی عواض العسیری کا مضمون رکھا ہے۔ ذرا پڑھیے، وہ کیا لکھتے ہیں۔ لیکن ٹھہریے، مضمون پڑھنے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ ڈاکٹر علی عواض العسیری کون ہیں۔ ڈاکٹر صاحب 2001 سے 2009 تک پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر رہے۔ ان کا شمار سفارت کاری کی دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں پاکستان دوست قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے مسائل پر وہ پاکستانیوں کی طرح سوچتے ہیں، لکھتے ہیں اور اس میں خیر خواہی اور محبت ہوتی ہے۔
ان کا جو مضمون میرے سامنے رکھا ہے اس کا عنوان ہے: "پاکستان: جی سی سی کی شراکت دار ی کی نئی رفتار"۔ اس مضمون میں انہوں نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی امکانات پر روشنی ڈالی ہے، یہ بتایا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں دیرینہ تعلقات ہیں، اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے، پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، بتایا ہے کہ کیسے پاکستان میں معیشت کے احیاء کے لیے غیر معمولی کوششیں کی جا رہی ہیں اور کیسے عرب دنیا ان کوششوں میں پاکستان کا ساتھ دے رہی ہے۔ اس سب کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستانی معیشت کو لاحق مسائل کیا کیا ہیں۔ اور یہ پہلو انتہائی اہم اور توجہ طلب ہے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : " سرمایہ کاری میں شدید کمی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے تیز رفتار ون ونڈو آپریشن شروع نہیں کر سکا۔ یہ دراصل غیر ضروری بیروکریٹک رکاوٹیں ہیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے ساتھ ساتھ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں"۔
سفارت کاروں کے بات کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ وہ محتاط انداز سے بات کرتے ہیں، بین السطور پڑھنے والے کو خود پڑھنا پڑتا ہے۔ سفارت کار سابق ہی کیوں نہ ہو اس احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اور جب سفارت کار سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست ملک کا ہو تو احتیاط میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کیا ہم غور کرنے کو تیار ہیں کہ ڈاکٹر علی عواض العسیری کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ سرمایہ کاری پاکستان میں اب بھی ہو سکتی ہے اگر رکاوٹیں دور کر لی جائیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ رکاوٹیں کیا ہیں۔ وہ سمجھا رہے ہیں کہ " یہ در اصل غیر ضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں ہیں اور ریگولیٹری تقاضے ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور نئے منصوبوں کے آغاز کے ساتھ ساتھ ساتھ پرانے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب ہیں"۔ سوال یہ ہے کیا ہم سوچنے کو تیار ہیں کہ یہ غیر ضروری بیوروکریٹک رکاوٹیں کیسی ہیں اور ریگولیٹری تقاضے کون سے ہیں جو سرمایہ کار کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات کے سینہ گزٹ سے سارا معاشرہ تعفن دے رہا ہے لیکن فیصلہ سازوں کو پرواہ نہیں۔ بیوروکریسی کا رویہ (بلکہ اس کا جود) ہی سرمایہ کاری کا دشمن ہے۔ ہماری بیوروکریسی کسی کام میں معاونت نہیں کرتی۔ یہ صرف کیڑے نکالتی ہے اور کام الجھاتی اور اسے خراب کرتی ہے۔ کوئی سرمایہ لے کر یہاں سرمایہ کاری کرنے آ جائے تو یہ اس دشمن سمجھ کر اس کی ہڈیوں کا گودا تک مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی ایک فیکٹری لگانے آ جائے درجنوں ادارے این او سی کے نام پر اس کاستیا ناس کر دیتے ہیں۔ ون ونڈو آپریشن کیوں نہیں قائم ہو سکا؟ کیونکہ اس سے بیوروکریسی کی رعونت متاثر ہو سکتی ہے۔ آپ چاہیں تو رعونت کو معاشی امکان یا اوپر کی آمدن بھی سمجھ سکتے ہیں جسے ہماری افسر شاہی اپنا حق سمجھتی ہے۔
یہ افسر شاہی مزاج میں نو آبادیاتی ہے۔ ہم نے سو سو کنال کے سرکاری محلات میں انہیں رکھ کر رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ یہ معاشرے کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ ان کی تربیت کا انداز ہی غیر انسانی ہے۔ مراعات کا ایک سمندر ہے جس میں یہ لیٹے پڑے ہیں۔ ان کی تنخواہیں دیکھیں، ان کے الائونس چیک کریں، ان کی مراعات دیکھیں آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ سرکاری زمینوں پر ان کے لیے کلب ہیں۔ پورا ہندوستان تھا اور ایک بادشاہ یا ایک وائسرائے ہوتا تھا، اب ایک منقسم ملک ہے اور بادشاہوں اور وائسرایوں کے لشکر اترے پڑے ہیں۔ بجلی کے بل انہیں معاف ہیں، موٹروے پر ٹیکس تک یہ نہیں دیتے، ریٹائر منٹ پر پلاٹ یہ باپ کی میراث سمجھ کر چند لاکھ میں لیتے ہیں اور کروڑوں میں بیچ کر پھر دانشوریاں فرماتے ہیں۔
ملک تو ان کی چراگاہ بن چکا ہے۔ ان کے مقابلے میں سرمایہ کار کو کیا ملتا ہے؟ اسلام آباد کلب ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ اربوں کی نہیں، کھربوں کی سرکاری زمین ہے جو افسر شاہی کو عطا کی گئی ہے جہاں یہ بیٹھ کر غریب کے لہو پر داد عیش دیتے ہیں اور ساتھ رہنمائی فرماتے ہیں کہ ہم یہاں ٹرک ڈرائیور کو تو نہیں ساتھ بٹھا سکتے، جواب میں انہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ اپنے کلب اپنی دولت سے بنائو، قومی خزانے پر رحم کرو۔ کیا اسلام آباد کلب پر کسی تاجر، کسی عالم، کسی استاد کا کوئی حق نہیں۔ یہ ریاست کیا افسر شاہی کی باپ کی میراث ہے؟
یہ افسر شاہی ہمارے قومی خزانے کا بلیک ہول ہے۔ آپ کے سارے پہاڑ سونے کے ہو جائیں اور سارے دریا پٹرول بن جائیں یہ افسر شاہی کا یاجوج ماجوج اسے بھی کھا جائے گا۔ یہ نو آبادیاتی آسیب ہے جس کو ہر حکومت پالتی پوستی ہے اور اسی کے ذریعے معاشرے کو دبا کر رکھتی ہے۔ یہاں افسر شاہی کے گھروں میں مار مار کر معصوم بچی کا حشر کر دیا جائے قانون قیلولہ فرماتا رہتا ہے لیکن غریب قلفی بیچتے پکڑاجاتا ہے اور پانچ لاکھ جرمانہ ہو جاتا ہے۔
آپ جتنے مرضی منصوبے بنا لیجیے، افسر شاہی کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ یہاں آئی ایم ایف سے قرض ملتے ہیں اسسٹنٹ کمشنروں کو کروڑوں کی مالیت کی نئی گاڑی عطا کی جاتی ہے تا کہ وہ ٹماٹروں اور بھنڈی توری کے نرخ چیک کر سکیں۔
معیشت بہتر کرنی ہے تو افسر شاہی کا بلیک ہول بند کرنا ہوگا۔ کوئی ہے جویہ بھاری پتھر اٹھا سکے؟