کشمیر : ہم کیا کر سکتے ہیں؟
لیگل فورم فار کشمیر کے زیر اہتمام مذاکرے میں ایک صاحب نے سوال کیا کہ کشمیر کی تاریخ سے تو ہم سب واقف ہیں، سوال یہ ہے کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس اہم ترین سوال کا جناب ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اور جناب سید احمد حسن شاہ صاحب نے ایک ڈیڑھ منٹ کے مختصر دورانیے میں اتنا جامع جواب دیا کہ دیوار دل سے خوش گوار حیرت لپٹ گئی۔
میں اس کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں، کیونکہ یہ سوال ہر ایک کے دامن سے الجھاہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس باب میں ہمارے فکری افلاس کا یہ عالم ہے کہ جب پارلیمان میں حکومت پاکستان کی کارکردگی پر سوال اٹھا تو وزیر اعظم عمران خان نے جھنجھلاتے ہوئے پلٹ کر قائد حزب اختلاف سے پوچھا: میں کیا کروں، کیا میں بھارت پر حملہ کر دوں۔ گویا بطور وزیر اعظم ان کے پاس اب کرنے کو کچھ باقی نہ تھا۔ فکری کم مائیگی کا عالم یہ تھا کہ بھری پارلیمان میں قائد حزب اختلاف سمیت کوئی ایک ایسا نہ تھا جو بتاتا کہ عالی جاہ، آپ یہ یہ کام اب بھی کر سکتے ہیں چونکہ یہ ایک "Juristic debate" تھی، اس لیے اس سوال کے جواب میں کہ ہم اب کیا کر سکتے ہیں، صرف وہ لائحہ عمل تجویز کیا گیا جس کا تعلق قانون کی دنیاسے تھا۔ اس کے چند نکات یہ تھے:
1۔ پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 96 کے تحت جنرل اسمبلی میں لے جائے اور جنرل اسمبلی کے ذریعے عالمی عدالت انصاف سے ایڈوائزری اوپینین، مانگے۔ اور اس سے پوچھے کہ بھارت نے جس طرح سے کشمیر کی حیثیت کو یکطرفہ طور پر تبدیل کیا ہے اور جو کچھ وہ وہاں کر رہا ہے، کیا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ایک ناجائز قدم نہیں ہے؟ کیا یہ جنگی جرائم کے زمرے میں نہیں آتا؟ اور کیا کشمیر کی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں ہی کی روشنی میں نہیں ہوگا؟ ان سوالات کا جواب، بہت واضح ہے کہ کیا ہوگا اورا س سے بھارت کے خلاف، قانون کی دنیا میں، مقدمہ مزید مضبوط ہو جائے گا۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے کہ اسرائیل کی جارحیت کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف سے اسی طرح کے ایڈوائزری اوپینین، لیے جا چکے ہیں۔ یہ اگر چہ اپنی نوعیت میں قابل نفاذ نہیں ہوگا لیکن بہر حال اس کی ایک اپنی معنویت ا ور اہمیت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
2۔ کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ البتہ شملہ معاہدے کے بعد بھارت کا اصرار رہا ہے کہ اب یہ ایک دوطرفہ مسئلہ ہے تو پاکستان چاہے تو اس کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ وہ بھارت کے چھ اگست کے اقدام کے بعد شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو اس سے آزاد کر لے۔ کیونکہ بھارت ویسے ہی شملہ معاہدے کو پامال کر چکا ہے۔
3۔ پاکستان اپنے آئین کے آرٹیکل 257 میں کچھ نئی چیزیں شامل کرے۔ یعنی اس میں ترمیم تو نہ کرے لیکن اسےexpand ضرور کرے، وہ بھی اس انداز سے کہ کشمیر کے مقدمے کی نوعیت پر کوئی فرق نہ پڑے۔
4۔ پاکستان نے اگر اپنے نقشے میں کشمیر کو شامل کیا ہے تو پھر واضح طور اس نقشے کے مطابق اپنے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرے۔
5۔ آزاد کشمیر کی ایک اپنی سپریم کورٹ موجود ہے۔ کشمیریوں کو چاہیے اس معاملے کو وہاں لے جائیں اور سپریم کورٹ سے کشمیر کی قانونی حیثیت پر ایک جامع فیصلہ لیں جس میں یہ لکھا ہو کہ ہماری قسمت کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے سے ہوگا۔ اس فیصلے میں کشمیر کا پورا مقدمہ پیش کیا گیا ہو اور اس فیصلے کا دنیا بھر میں ابلاغ کیا جائے۔
میں چوں کہ اس مذاکرے میں کافی تاخیر سے حاضر ہوا، اور مجھے علم نہیں تھا کہ گفتگو کس پیرائے میں ہو رہی ہے تو اس خدشے کے تحت کہ کہیں ایسا نہ ہو میری بات سے وہ ربط ٹوٹ جائے، میں نے صرف ایک ہی گذارش کی ا ور وہ یہ کہ آرٹیکل 370 ہمارا پوائنٹ آف ریفرنس نہ کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 370 بھارت کا آئین ہے اور ہمیں بھارت کے آئین کے کسی آرٹیکل کے تقدس کا پرچم نہیں اٹھا نا چاہئے۔ بے شک عملی طور پر اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد کشمیر کے حالات بہت تکلیف دہ ہو چکے ہیں لیکن اس سارے منظر نامے کا بنیادی عنوان آرٹیکل 370 نہیں ہو سکتا۔ بنیادی عنوان اقوام متحدہ کی قراردادیں اور اس کا چارٹر اور استصواب رائے کا آفاقی حق ہے۔ لہذا اہم یہ ہے کہ بھارت نے انٹر نیشنل لاء کوپامال کیا ہے۔ یہ اہم نہیں ہے کہ اس نے یہ کام اپنے آئین کے کس آرٹیکل کو ختم کرکے کیا ہے۔ ہمیں اپنی ترتیب درست رکھنی چاہیے۔ ہمارا مقدمہ انٹر نیشنل لاء کے تحت ہے، بھارتی آئین کے تحت نہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ کشمیر ہمارے ہاں جب جب زیر بحث آیا، بالعموم خطابت، سیاست، کتھارسس، اور غم و غصے کے عنوان کے تحت آیا۔ ایک عرصے بعد، کشمیر لیگل فورم کے اس مذاکرے میں فکری وجاہت کے ساتھ اس موضوع پر بات ہوئی تو، سچی بات ہے، بہت اچھا لگا۔
واپسی پر یہ سوال میرے ہمراہ تھا کہ سر شام ہمارے ہاں ٹاک شوز کے نام پر سطحی اور لایعنی گفتگو کا تکلیف دہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو اس معیار کی گفتگو ہمارے ٹاک شوز میں کیوں نہیں ہو سکتی۔ اپنے اپنے شعبہ جات کے جوماہرین ہیں، اہل علم و فکر ہیں، ابلاغ کی دنیا ان کے لیے کب تک اجنبی رہے گی اور کب تک اس پر اوسط درجے کے سینیئر تجزیہ کاروں کا غلبہ رہے َ؟ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی سماج فکری ارتقاء کے بغیر آ گے نہیں بڑھ سکتا اور ہمارے سماج میں اہل فکرو دانش اجنبی ہو چکے۔ ابلاغ کی مسند ان کے ہاتھ میں ہے علم و دانش سے جن کا تعلق واجبی درجے سے بھی کم ہے۔ نہ ہونے کے برابر۔ گفتگو کا معیار گرا توہمہ جہت زوال نے ہمارا گھر دیکھ لیا۔
کشمیر کے حوالے سے لیگل فورم فار کشمیر کا کام قابل تحسین ہے۔ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر بھارت جو کچھ کر رہا ہے اس پر اس ادارے نے بہت محنت سے تحقیق کی ہے اور اسے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کا مقدمہ بھی اس لیگل فورم نے شواہد اور دلائل سے پیش کیا ہے۔ جو کام اصل میں دفتر خارجہ اور کشمیر کمیٹی کے کرنے کا تھا، وہ کام لیگل فورم فار کشمیر کے یہ نوجوان کر رہے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی خاموشی کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ اس کے چیئر مین، مقبوضہ کشمیر کے جناب ناصر قادری مبارک کے مستحق ہیں جو وہ قرض بھی اتار رہے رہے ہیں جو واجب تو شاید ہم پر تھے۔