کارکردگی کہاں ہے؟
سترہ روپے کلو ٹماٹر اور پانچ روپے کلو مٹر سے قوم کے شعور اجتماعی کی توہین کے بعد اب ارشادِ تازہ یہ ہے کہ کسی بے روزگار کو نوکری دینا حکومت کا مینڈیٹ ہی نہیں۔ جناب حفیظ شیخ کی اس رفو گری سے یاد آیا وہ کیسی حسین شام تھی جب عمران خان نے پلکوں میں سپنوں کی حدت لیے اپنا انتخابی منشور پیش کیا تھا۔ منشور کے باب چار میں لکھا تھا ہم اگر اقتدار میں آ گئے تو ہم پانچ برسوں میں 10 ملین ملازمتیں فراہم کریں گے۔ یعنی ہر سال میں بیس لاکھ ملازمتیں، یعنی ہر ماہ میں ۱یک لاکھ چھیاسٹھ ہزار ملازمتیں۔ یعنی ہر روز پانچ ہزار پانچ سو پچپن ملازمتیں۔ یہ وہی معاملہ تھا کہ چشمِ مے گون و صراحی بہ بغل، جام بہ کف۔ سوال پوچھا تو اعدادو شمار کے ساتھ ایک طویل وعظ سنا دیا گیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ تو ہم نے میانہ روی میں 10 ملین کی بات کر دی ہے ورنہ جس روز ہمارا خان اقتدار میں آیا اتنی نوکریاں تو ہم ہر سہہ ماہی میں دیا کریں گے۔ زمینیں سونا اگلیں گی، کرپشن رک جائے گی اور پاکستان میں نوکریوں کے لیے غیر ملکیوں کی قطاریں لگی ہوں گی۔ یہ وہی بیانیہ تھا جس کا اظہار مراد سعید نے بھرے جلسے میں کر دیا: جب کپتان آئے گا، 100 ارب ڈالر اس کے منہ پر منہ مارے گا اور 100 ارب ڈالر اُس کے منہ پر مارے گا۔ اب ایک سال گزرا ہے تو ارشاد فرمایا جا رہا ہے نوکریاں دینا تو ہمارا مینڈیٹ ہی نہیں تھا۔ مزاجِ یار برہم نہ تو کوئی اتنا ہی بتا دے کہ آپ کا مینڈیٹ تھا کیا؟ خلق خدا کی اجتمائی توہین اور تذلیلِ مسلسل؟ کیا اس چاند ماری کے لیے خلق خدا نے آپ کو چنا تھا؟
تاویلات کا ایک دفتر کھلا ہے۔ روز ایک وزیر باتد بیر اپنی قادرالکلامی سے عمران خان کی حکومت کو تماشا بناتا ہے اور روز نونہالان انقلاب رات گئے تک اس ارشاد گرامی میں سے دانش اور حکمت کے موتی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آدھے رستم ہیں اور آدھے افلاطون۔ ایک بھی ایسا نہیں جو فشار خون میں اضافے کا سبب بنے بغیر بات کر سکے۔ عاجزی کی تو بات ہی نہ کیجیے، شائستگی اور تہذیب کا بحران بھی شدید تر ہو چکا ہے۔ نونہالان انقلاب نہیں، غیض و غضب سے بھرے اور حفظ مراتب سے محروم یہ چلتے پھرتے آتش فشاں ہیں۔ اب قسمت کا دھنی ہے جس کی عزت محفوظ اور دستار سلامت رہ جائے۔
مینڈیٹ کیا ہوتا ہے؟ اور جب کوئی جماعت اقتدار میں آ جائے تو اس بات کا تعین کیسے جا سکتا ہے کہ اس کا مینڈیٹ کیا ہے؟ اس کا جواب انتخابی منشور ہے۔ جو وعدے آپ نے انتخابی منشور میں کیے تھے وہی آپ کا مینڈیٹ ہیں۔ ایسا یقینا نہیں ہو سکتا کہ آپ منشور میں کیے گئے ہر وعدے کو پورا کریں۔ لیکن آپ کی سمت کا تعین بہر حال آپ کا منشور ہی کرتا ہے۔ یہ بات تو گوارا کی جا سکتی ہے کہ آپ منشور میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں تساہل اور غفلت کا شکار ہو جائیں لیکن یہ رویہ ناقابل قبول ہے کہ وزیر با تدبیر منشور کے باب چہارم میں کیے وعدے سے اس شان سے مکر جائے کہ وہ کہے یہ ہمارا مینڈیٹ ہی نہیں ہم بے روزگاروں کو نوکریاں دیں۔ حفیظ شیخ نے تو شاید اس منشور کو پڑھا بھی نہ ہو۔ جب منشور بنا اس وقت حفیظ شیخ آصف زرداری کے فضائل کے قائل تھے، یہ تو بہت بعد میں انہیں علم ہوا کہ نجات دہندہ تو عمران خان ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ عمران ہوں جنہیں بعد میں علم ہوا ہو کہ نجات دہندہ تو حفیظ شیخ ہے۔ بھان متی کے کنبے کے نام پر حکومت کی تہمت لگائی جائے تو لطائف تو جنم لیتے ہیں لیکن ایسے لطائف؟ لیکن ایسے لطائف؟ الامان، الامان۔
ایک تاویل یہ ہے کہ نوکریاں حکومت نہیں دیتی۔ وہ ماحول بناتی ہے اور نوکریاں پرائیویٹ شعبہ دیتا ہے۔ کسی نے کب کہا نوکریاں سرکاری شعبے میں ہی دی جائیں۔ مطالبہ تو یہ ہے کہ حکومت اپنے منشور میں کیے گئے وعدے کے مطابق وہ ماحول بنائے کہ نجی شعبے میں ترقی ہو اور نوکریاں پیدا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے حکومت نے کیا ماحول بنایا؟ حالت یہ ہے کہ ہر شعبہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ کوئی ایک شعبہ بتا دیجیے جہاں آپ کے آنے کے بعد کسی کے ہاں سکھ اور سکون ہو۔ نہ کوئی پالیسی ہے نہ کوئی درد دل۔ ہیجان کا عالم ہے اور وحشت سوار ہے۔ آتے ہی کسی کا گھر گرا دیا کسی کی دکان۔ لگتا ہی نہیں ووٹ کی قوت سے کوئی اپنا، کوئی خیر خواہ آیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے ایک فاتح ہے جس نے ہر چیز روند ڈالی ہے اور اب چھوڑنا اس نے کسی کو نہیں۔ کہیں خیر خواہی اور احساس نہیں ہے، پتھر جیسی زبانیں ہیں اور بے اعتنائی کا سونامی ہے۔ اب جو بچ جائے اس کا مقدر۔
کسی کے پاس مرہم نہیں، سب نمک کے بیوپاری ہیں۔ کوئی حوصلہ بندھانے والا نہیں، سب ہی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اتنے سو محکمے بند کر دیں گے، فلاں کی ایسی اور فلاں کی تیسی، ابھی تو اور مہنگائی ہو گی، ابھی تو اور چیخیں نکلیں گی۔۔۔ یہ ارشادات تنور پر لڑتی نیم خواندہ عورتوں کے نہیں وفاقی وزراء کے ہیں۔ مرہم ایک ہی ہے۔ ہر کمال کے بعد ارشاد ہوتا ہے: بس آپ نے گھبرانا نہیں۔
بے روزگاری کا عالم یہ ہے کہ نوجوانوں کا 61 فیصد بے روزگار ہے۔ ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے، وہ بھی کل کو بے روزگار ہوں گے۔ جو پڑھ کر آ رہے ہیں ان کے لیے ملازمتیں نہیں ہیں۔ بے روزگاری کی موجوودہ شرح کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ہر سال 14 لاکھ ملازمتیں پیدا کرے۔ یعنی ہر سال 14 لاکھ ملازمتیں پیدا کر کے بھی آپ کے 61 فیصد نوجوان بے روزگار رہیں گے۔ اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو بے روزگاری کی شرح بڑھ جائے گی۔ اب ذرا حساب لگائیے عمران خان کی حکومت نے ایک سال میں کتنی ملازمتیں پیدا کیں؟ نئی ملازمتیں خاک پیدا کرنا تھیں انہوں نے کماتے لوگوں کو بے روزگار کر دیا۔
ایک پیج پر ہونے کا زعم کب تک؟ آخری تجزیے میں یہ آپ کی کارکردگی ہوتی ہے جو آپ کو سرخرو کرتی ہے؟کارکردگی کہاں ہے؟