کراچی انتخاب،سب ہار گئے؟
کراچی کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے حیران کر دیا۔ سارے تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے اور پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی۔ ثابت ہوا کہ الیکشن واقعی ایک سائنس ہے اور یہ آرٹس، کے طالب علموں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ سائنس کو ایک سائنسدان ہی سمجھ سکتا ہے۔ لکل فن رجال۔
رات افطار کے بعد ہم بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ کراچی کا الیکشن کون جیت رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے چودھری جعفر اقبال صاحب نے جیت کا دعوی کیا اور ایم کیو ایم کے میاں عتیق صاحب نے اس دعوی کی تائید کر تے ہوئے کہا کہ مفتاح اسماعیل صاحب نے اتنی میٹھی میٹھی ٹافیاں بانٹ رکھی ہیں، اب بھلا وہ کیسے ہار سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جناب آفتاب جہانگیر نے تومسلم لیگ ن اور چودھری جعفر اقبال صاحب کو جیت کی مبارک بھی دے ڈ الی۔ یہی نہیں بلکہ آفتاب جہانگیر صاحب نے کہا کہ آصف بھائی میں تو مطالبہ کرتا ہوں کہ تحریک انصاف اس شکست کی وجوہات اور اسباب کو جانے کہ آخر وہ کیا غلطیاں ہوئیں کہ آج ہم اپنے ہی جیتے ہوئے حلقے سے شکست کھا رہے ہیں اور مسلم لیگ ن جیت رہی ہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار کے ساتھ اپنے ہی حلقے میں عوام نے جس طرح کا سلوک کیا اور جن نعروں سے ان کا استقبال کیا وہ آفتاب جہانگیر صاحب کے مطالبے کی معنویت میں مزید اضافہ کر رہاہے۔ چودھری جعفر اقبال صاحب نے البتہ مسلم لیگ کی اس فتح کی بہت ساری وجوہات بیان کر دیں اور یوں محفل تمام ہو گئی۔
صبح اٹھ کر دیکھا تو نتائج حیران کن تھے۔ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن بھی ہار چکی تھی اورجیت پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی۔ میں اب بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس اپ سیٹ کی کیا تعبیر کی جائے؟
پہلی تعبیر تو یہ ہو سکتی ہے جو مسلم لیگ ن بیان کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اس کی جیت کو شکست میں بدلا گیا اور اس کے پاس اس مقدمے کے حق میں اپنے دلائل بھی موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بیانیے کی اگر شرح صدر کے ساتھ تائید مشکل ہے تو اس کو پورے یقین کے ساتھ رد کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ دلائل کس حد تک وزنی ہیں اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں اپنے جود کا احساس بھر پور طریقے سے دلایا تھا۔ اگر واقعی مسلم لیگ ن کے الزامات میں صداقت ہے تو میرا نہیں خیال الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہے۔ اس صورت میں، امید ہے کہ، الیکشن کمیشن بروئے کار آئے گا۔ یہ سوال بہر حال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ جب رات کو خود تحریک انصاف کے کراچی سے ایم این اے مسلم لیگ ن کو جیت کی مبارک دے رہے ہوں تو مسلم لیگ پھر ہار کیسے گئی۔
پیپلز پارٹی کے یہی صاحب تھے، قادر خان مندوخیل صاحب اور اسی حلقہ سے 2018 کے انتخاب میں ان کو صرف 7ہزار2 سو36 ووٹ ملے تھے۔ ان تین سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کون سی ایسی کارکردگی دکھائی ہے کہ ان کے ووٹ اس حیران کن طریقے سے بڑھ جائیں۔ عالم یہ تھا کہ تجزیہ کار پیپلز پارٹی کو مقابلے کی دوڑ میں شامل ہی نہیں کر رہے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف سے اگر لوگ اتنے مایوس ہو چکے ہیں کہ اس کا امیدوار جیتا ہوا حلقہ بری طرح ہار گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں کھدوائی ہیں کہ حیران کن کامیابی اس کا مقدر ٹھہرے۔ ایسے میں اگر اس کے ناقدین اس کی اپنے انداز سے شرح بیان کر ہے ہیں تو اس کی معنویت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟
یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ ستر اسی فیصد پولنگ سٹیشن کے نتائج آنے پر ایک پارٹی جیت رہی ہوتی ہے اور پھر آخری بیس تیس فیصد پولنگ سٹیشن سے نتائج آتے ہیں تو پانسا ہی پلٹ جاتا ہے تو یہ آخر میں آنے والے پولنگ سٹیشنز کے نتائج میں ایسی کون سی جادوئی تاثیر ہوتی ہے کہ ان کے تشریف لاتے ہی معرکہ کارزار کے رنگ ہی بدل جاتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہو تو ہم طالب علم ہمہ تن گوش رہنمائی کے طالب ہیں۔ ایک حلقے کا الیکشن ہوتا ہے اور پورا الیکشن کمیشن اسے دیکھ رہا ہوتا ہے پھر بھی ایک کھچڑی سے پک جاتی ہے اور ایک سے زیادہ امیدوار جیت کے دعوے فرمانے لگتے ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن غور فرمائے گا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ دور دراز کے کسی علاقے کا الیکشن نہیں تھا، یہ الیکشن کراچی جیسے بڑے شہر میں ہو رہا تھا۔ پھر بھی عالم یہ ہے کہ محض دس فیصد ٹرن آئوٹ رہا۔ دس فیصد ٹرن آئوٹ والے صرف ایک حلقے میں اگر شفافیت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا تو یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
انصاف کی طرح انتخاب کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انتخاب صرف ہونا نہیں چاہیے ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ یہاں کیا نظر آ رہا ہے؟ شفافیت کے سوال کو تو ایک طرف رکھ دیجیے یہاں یہ حال ہے کہ نصف درجن قومی، مذہبی اور علاقائی جماعتیں مل کر الیکشن لڑ رہی ہیں اور ٹرن آئوٹ دس گیارہ فیصد ہے۔ نوے فیصد عوام نے گویا اس نتخابی عمل سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔ جیتنے والے کے حصے میں حلقے کے رجسٹرڈ ووٹوں کا تین فیصد بمشکل آیا ہو گا اور یہ صاحب اس تین فیصد ووٹ کے ساتھ حلقے کی نمائندگی فرمائیں گے۔ کیا انتخابی عمل اس سے زیادہ مضحکہ خیز بھی ہو سکتا ہے؟ کیا انتخابی اصلاحات کی ضرورت نہیں جہاں ٹرن آئوٹ کی ایک کم از کم شرح متعین کر دی جائے ورنہ الیکشن کالعدم قرار دیا جائے۔
سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ بلند بانگ دعووں کے ساتھ وہ اپنی طرف سے حلقے میں موزوں ترین آدمی امیدوار بناتی ہیں اور ٹرن آئوٹ دس گیارہ فیصد رہتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ عوام نے آپ سب کو ٹھکرا دیا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ سب ہار گئے ہیں۔ سیاسی نظام بہت تیزی سے بے توقیر ہو رہا ہے اور اہل سیاست کو اس کا احساس نہیں ہے۔ یہ آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجا رہے ہیں۔