اسرائیل زمینیں ہتھیا کر قائم ہوا
سلطنت عثمانیہ کی یہودیوں کو گائوں کے گائوں اونے پونے داموں بیچنے کی غلطی اپنی جگہ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہودیوں نے عربوں سے زمینیں خرید کر یہاں ا سرائیل قائم کیا تھا۔ یہ واردات زمینیں خرید کر نہیں، زمینیں ہتھیا کر کی گئی۔ معاملے کی درست تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ چیزوں کی ترتیب ٹھیک رکھی جائے۔
یہود کو زمینیں بیچنے کے دو ادوار ہیں۔ ایک 1882 سے 1908 تک ہے اور دوسرا دور1908 سے 1914 تک ہے۔ ان دو ادوار میں بیچی گئی زمینوں کی غلطی اپنی جگہ اور یہی غلطی یہودی ریاست کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک عامل ہے لیکن اصل واردات اس کے بعد ہوئی جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور ایڈ منڈ ایلن بے نے کہا:" اب صلیبی جنگیں اپنے اختتام کو پہنچیں "۔
عربوں کو برطانیہ نے اس وعدے پر ساتھ ملایا تھا کہ ان علاقوں میں عربوں کی حکومتیں بنیں گی۔ شریف حسین سے ایک تحریری وعدہ بھی کر لیا گیا تھا۔ لیکن ایک وعدہ یہودیوں سے بھی کیا جا چکا تھا کہ فلسطین میں ان کا قومی وطن قائم کیا جائے گا۔ جب اس وعدے کی تکمیل کے وقت اخلاقی سوال اٹھے اور مقامی اضطراب بڑھا تو اس کا جواب لارڈ بالفور نے اپنی ڈائری میں یوں دیا:" ہمیں فلسطین سے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ صیہونیت ہمارے لیے عربوں کی خواہشات سے زیادہ اہم ہے"۔
چنانچہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی مہم کو عملی شکل دینے کی شروعات یہاں سے ہوئیں۔ نپولین وہ پہلا حکمران تھا جس نے فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری اور ریاست کے قیام کی تجویز دی۔ لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو انگریزوں کے انتداب میں دے دیا اور برطانیہ کو ہدایت کی کہ نہ صرف فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کی جائیں بلکہ صیہونی تنظیم کو باقاعدہ ریاستی نظم و نسق میں شامل کیا جائے۔ چنانچہ برطانیہ نے فلسطین میں جو پہلا کمشنر تعینات کیا تھا وہ یہودی تھا اور اس کا نام ہربرٹ سیموئل تھا۔
اس نے پہلا کام یہ کیا کہ زراعت اور تعلیم کے شعبے یہودیوں کے حوالے کر دیے۔ دنیا بھر سے یہودیوں کو بلا کر فلسطین میں آباد کیا جانے لگا۔ انہیں زمین کاشت کرنے کے لیے قرضے دیے گئے اور رہائش کی مد میں الائونس جاری کیے۔ ساتھ ہی ان کے لیے وظیفے بھی مقرر کیے گئے۔ انہیں پیکج دیا گیا کہ جتنی فصل وہ تیار کریں گی اس کی قیمت کے ساتھ اتنا ہی انعام پائیں گے۔
دوسری طرف عربوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے۔ بقایا جات کی مد میں ان کی زمینیں ضبط کرنا شروع کر دیں۔ ضبط کردہ یہ زمینیں یہودیوں میں مفت تقسیم کی جانے لگیں۔ یروشلم کے مضافات سے آٹھ ہزار عرب کاشتکاروں کو 50 ہزار ایکڑ زمین سے بے دخل کر دیا گیا اور بدلے میں انہیں صرف تین پائونڈ دس شیلنگ کا معاوضہ ادا کیا گیا۔ غور فرمائیے تین پائونڈ دے کر پچاس ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ۔ چنانچہ زمینیں بیچنے کے باوجود عالم یہ تھا کہ 1914 میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد جوصرف 70 ہزار تھی، 1939 تک بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ تک جا پہنچی۔
یہودی جتھے فلسطین میں آنے لگے۔ وہ مسلح تھے۔ انہیں ہر قسم کا اسلحہ رکھنے کی آزادی تھی۔ کمشنر کی جانب سے انہیں نہ صرف اسلحہ کے لائسنس دیے گئے بلکہ اسلحہ بھی فراہم کیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے البتہ قانون مختلف تھا۔ وہ اسلحہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ حیفہ میں عرب کسانوں کو اسلحہ رکھنے کے جرم میں سزائے موت تک دی گئی۔ خنجر تک رکھنے پر پابندی تھی۔ کسانوں سے زرعی آلات بر آمد کر کے کہا گیا یہ خنجر ہیں یا خنجر سے مشابہت رکھتے ہیں اور اس جرم میں انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا اور زمینیں ضبط کی گئیں۔
جب مسئلہ فلسطین کو 1947 میں اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تو اس ساری واردات کے باوجود عالم یہ تھا کہ فلسطین کی زمین کا صرف6 اعشاریہ 5 فیصد(چھ اعشاریہ پانچ)رقبہ یہودیوں کے قبضے میں تھا۔ لیکن اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کا 55 فیصد علاقہ دے دیا۔ آج یہ کہنا کہ یہودیوں نے زمینیں خرید کر اسرائیل بنایا تھا، قرین انصاف نہیں ہے۔ چھ اعشارہ پانچ فیصد میں بھی اوون کی رائے میں چار فیصد علاقہ وہ تھا وہ کمشنر کی مہربانیوں سے ضبط کر کے یا چھین کر یہودی آباد کاروں کو دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے مگر صریحا نا انصافی کرتے ہوئے یہود کو 55 فیصد علاقہ دے دیا جب کہ ان کی آبادی نئے آباد کاروں کے طوفان کے باوجود 33 فیصد تھی۔ عرب اس وقت بھی 66 فیصد تھے لیکن ان کے حصے میں 45 فیصد علاقہ آیا۔ اقلیت کو زیاادہ علاقہ مل گیا اور اکثریت کو کم۔ یہ اقوام متحدہ کا انصاف تھا۔
نومبر 1947 کو تقسیم کا یہ فارمولا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اس کی مخالفت میں سب سے توانا آواز اس ملک کے وزیر خارجہ کی تھی جس کو قائم ہوئے تین ماہ ہوئے تھے۔ یہ پاکستان تھا۔ اس منصوبے کی منظوری کے لیے کم از کم درکار ووٹ 33 تھے۔ لیکن ملنے والے ووٹوں کی تعداد 30 تھی۔ چنانچہ ہیٹی، فلپائن اور لا ئبیریا کو ڈرا دھمکا کر یہ تین ووٹ لیے گئے اور تعداد پوری کی گئی۔ امریکہ کے پہلے سیکرٹری دفاع جیمز فورسٹل نے اس زمانے کے واقعات پر ڈائری لکھی جو The Forrestal Diaries کے نام سے نیویارک ہیرلڈ ٹریبیون میں چھپتی رہی۔ اسے سنسر بھی کیا گیا اور بعد میں ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوئی۔ اب اس سال سنا ہے اس کا غیر سنسر شدہ ایڈیشن بھی آ گیا ہے۔ سنسر شدہ ایڈیشن میں وہ لکھتے ہیں:" اقوام متحدہ میں دوسری اقوام کو دبائو میں لانے کے لیے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ قریب قریب شرمناک تھے"۔ انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ ایس ویلس نے بھی اعتراف کیا کہ وائٹ ہائوس کے براہ رست حکم پر یہ دبائو استعمال کیا گیا۔
یوں اسرائیل قائم ہوا۔ زمینیں خرید کر نہیں، ہتھیا کر۔ اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں، جاری ہے۔