عمران خان : ویکھیا ای اپنا حال
رات وزیر اعظم عمران خان کو ضمیر کا سودا کرنے والے منحرف اراکین سے واپسی کی درخواستیں کرتے سنا تو منیر نیازی یاد آ گئے:
ہُن جے ملے تے روک کے پُچھّاں
ویکھیا ای اپنا حال!
کِتھّے گئی اوہ رنگت تیری
سپّاں ورگی چال
گَلّاں کردیاں گُنڈیاں اَکھّاں
وا نال اُڈدے وال
کِتھّے گیا او ٹھاٹھاں ماردے
لہو دا انہاں زور
ساہواں ورگی گرم جوانی
لے گئے کیہڑے چور
تحریک انصاف کے خوابوں کی منڈیر پر لاف الف کی یہ آکاس بیل کپتان صاحب نے خودچڑھائی تھی، اب اگر لوگ دھوکہ دے رہے ہیں تو اس میں حیرت کیسی؟ کبھی کبھی میں سوچتاہوں جسٹس وجیہہ الدین احمد جیسے نجیب لوگ آج تحریک انصاف کے ساتھ ہوتے اور قانونی امور پر عمران خان کو اہل خوشامد کی بجائے (جو فن بیچ کر منصب کے آرزو مند رہتے ہیں) ان کی مشاورت میسر ہوتی تو کیا یہ تماشا لگتا جو قانون سازی کی دنیا میں لگا پڑا ہے۔
قریب 70 فیصد کابینہ اجنبیوں پر مشتمل ہے۔ اتحادیوں پر یا ان ابن الوقتوں پر جو ہر صبح نیا معبد تلاش کرتے ہیں۔ ٹکٹ دے کر جنہیں ایوانوں میں پہنچایا، ذرا اٹک سے شروع ہو جائیے اور صرف لاہور فیصل آباد تک جائیے، ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ ق لیگ کو چند سیٹوں کے طعنے دینے والے نونہالان کو علم ہی نہیں کہ ق لیگ صرف اتحادی ہی نہیں اس کے درجن بھر لوگ تحریک انصاف بن کر اسمبلیوں میں براجمان ہیں۔
ایسی ہی ایک سہ پہر تھی۔ لوگ جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے۔ عمران خان نے اہل صحافت کو مدعو کیا۔ حامد میر، سلیم صافی، رئوف کلاسرا درجن بھر لوگ مدعو تھے۔ مسکراتا چہرہ لیے عمران خان تشریف لائے اور دو لوٹے، معاف کیجیے دو نو مولود انقلابیے ان کے دائیں بائیں آ کر بیٹھ گئے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی سوال زبان پر آ گیا۔ عرض کی کہ یہ جو لوگ آپ نے دائیں بائیں بٹھا لیے ہیں، کیا یہ آپ کی ساری جدوجہد کی نفی نہیں۔ کیا آپ کی بائیس سالہ جدو جہد کا خلاصہ یہی ہے کہ آخری قہقہہ انہی کا ہوا جن کے خلاف آپ نے جدوجہد کی تھی؟
عمران خان صاحب کو سوال پسند نہیں آیا لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ تلخ سوالات پر خفا نہیں ہوتے تھے اور اگر ہوتے تھے تو خفگی ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ میں کسی کو پارٹی میں آنے سے تو نہیں روک سکتا۔ البتہ یہ میرا آپ سب سے وعدہ ہے کہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ اس کو ملے گا جس کا چہرہ تحریک انصاف کے منشور سے ملتا ہو۔ اور جب ہم ٹکٹ دیں گے تو آپ سب یہ دیکھ لیں گے کہ ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ ٹکٹ ہم صرف اور صرف میرٹ پر دیں گے۔
بعد میں جب عمران خان نے ٹکٹ جاری کیے تو میں ایک ایک امیدوار کا چہرہ دیکھتا، پھر تحریک انصاف کا منشور دیکھتا اور یہی سوچتا رہتا کہ ان دونوں میں کیا چیز مشترک ہے۔ اٹک سے قومی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں اور دونوں ٹکٹ ق لیگ سے تحریک انصاف میں آنے والے میجر طاہر صادق کو دے دیے گئے۔ چکوال سے بھی دو نشستیں تھیں۔ ایک پر ق لیگ کے پرویز الہی کے لیے تحریک انصاف نے امیدوار ہی نہیں دیا۔ اور دوسری پر ذوالفقار دلہا کو ٹکٹ دے دیا۔ جو ن لیگ کے باقاعدہ امیدوار تھے اور شہر میں ان کے بینر لگے ہوئے تھے۔ راتوں رات ان کان لیگ کا ٹکٹ واپس ہوا اور صبح ہوئی تو وہ تحریک انصاف کے امیدوار بن چکے تھے۔
جہلم سے دو نشستیں تھیں۔ ایک پر مشرف دور کے ضلع ناظم اور ق لیگ کے رہنما فرخ الطاف صاحب کو ٹکٹ دیا گیا۔ دوسری پر ق لیگ اور پی پی پی کے سابق رہنما فواد چودھری کو ٹکٹ دیا گیا۔ یعنی ایک ٹکٹ چچا کو دوسرا بھتیجے کو۔ مزید کارنامہ یہ کیا کہ نیچے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی انہی کو دے دیا۔
گجرات این اے 68میں کارکنان کو حکم دیا کہ ق لیگ کے چودھری حسین الہی کو ووٹ دیں۔ این اے 69میں کارکنان سے کہا گیا چودھری پرویز الہی کو ووٹ دیں۔ این اے 72سے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کی رہنما فردوس عاشق اعوان کو ٹکٹ تھما دیا گیا۔ این اے 74 سے پیپلز پارٹی کے غلام عباس کو تحریک انصاف کا امید وار بنا دیا گیا۔ این اے 75سے ق لیگ کے سابق وزیر اسجد ملہی کو قافلہ انقلاب کا ٹکٹ پکڑا دیا گیا۔
این اے 77 نارووال سے ن لیگ کے میاں رشید کو تحریک انصاف کا ٹکٹ عطا فرمایا گیا۔ این اے 79سے ق لیگ کے حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے کو ٹکٹ دیا گیا۔ این اے 80 سے مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے میاں طارق محمود کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ این اے 81 سے پیپلز پارٹی کے محمد صدیق کو اپنا امیدوار بنا لیا گیا۔ این اے 83سے مسلم لیگ ن کے دو دفعہ کے وزیر اور پنجاب ن لیگ کے سیکرٹری جنرل رانا نذیر احمد کو ٹکٹ دے دیا گیا جو صرف دو ماہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ این اے 84 سے ق لیگ کے سابق ایم این اے بلال اعجاز کو تحریک انصاف کا امیدوار بنا لیا گیا۔
این اے 86 سے پیپلز پارٹی کے سابق وزیر نذر گوندل کو ٹکٹ دے دیا۔ این اے 87سے ن لیگ کے ایم پی اے چودھری شوکت بھٹی کو ٹکٹ دے دیا۔ این اے 88 کا ٹکٹ پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن کو دیا گیا۔ این اے 89سے ق لیگ کے رہنما غیاث میلہ کے بیٹے کو ٹکٹ تھما دیا گیا۔ این اے 90 کا ٹکٹ ق لیگ سے پیپلز پارٹی میں آنے اور ایم پی بننے والی نادیہ عزیز کو دے دیا گیا۔ این اے 91 کاٹکٹ ق لیگ کے صوبائی وزیر عامر چیمہ کو دیا گیا۔ این اے 98 کا ٹکٹ ن لیگ کے افضل ڈھانڈلا کو دے دیا گیا۔
یہ ایک طویل کہانی ہے جو ایک کالم میں نہیں لکھی جا سکتی۔ حکومت بن گئی تو ایسے ہی لوگ وزیر بن گئے۔ ایسے ہی نابغوں کو مشیر بنایا جاتا رہا۔ زرداری کا وزیر خزانہ عمران خان کا مشیر خزانہ بن گیا۔ وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔ یہ بھی ایک طویل کہانی ہے۔
یہ تحریک انصاف کی حکومت تھی ہی کب۔ یہ تو الیکٹ ایبلز کا ایک کنبہ تھا جسے عمران خان اپنے کندھے پر بٹھا کر اقتدار کے ایوانوں میں لائے۔ یہ لوگ ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں۔ آمریت ہو یا جمہوریت اور ن ہو یا ق، صرف عنوان بدلتا ہے۔ حکومت انہی چند گھرانوں کے پاس رہتی ہے۔ عمران کی تبدیلی بھی صرف عنوان کی تبدیلی تھی۔ یاروں نے اسے نیا پاکستان سمجھ لیا۔ اب وہ لوگ موسم کی تبدیلی کو محسوس کر کے واپس جا رہے ہیں تو یہ ایک فطری امر ہے۔ جیسے مہمان پرندے موسم کے ساتھ ہی ہجرت کر جاتے ہیں، یہ بھی جگہ بدل جاتے ہیں۔
ایسے شہسوواروں کے ساتھ جب حکومت بنائی تھی تو اب یہ شہسوار پیٹھ پھیر چکے ہیں تو چیخ و پکار کیسی؟ یہ آپ ہی کا انتخاب تھا۔ حضور والا، اب کیوں اداس پھرتے ہو اسلام آباد کی شاموں میں، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔