Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Hurriyat e Fikr Ya Khushamad

Hurriyat e Fikr Ya Khushamad

حریت فکر یا خوشامد

ملک میں رونما ہونے والا ہر واقعہ ہمیں ایک ہی بات بتاتا ہے کہ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔ اب ہم صرف اپنے اپنے تعصبات اور اپنی اپنی خواہشات پر جیتے ہیں۔ اصول، اخلاقیات، شعور اجتماعی یہ سب گئے وقتوں کے قصے تھے، جو کتابوں میں دفن ہو گئے۔ ہم قوم نہیں مختلف گروہوں کا ایک مجموعہ ہیں جہاں گروہ کا مفاد ہی اصول ہے اور قانون بھی۔

تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں ایک رپورٹ پیش کی گئی، جس کے مندرجات بہت بڑے اخلاقی بحران کی خبر دے رہے ہیں۔ رپورٹ کی سنگینی اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پولیس یا نیب کے کسی تفتیشی کی تیار کردہ رپورٹ نہیں ہے بلکہ اسے ایک آئینی ادارے نے تیار کیا ہے، جو جب فیصلہ سنائے گا تو اس کی قوت نافذہ ہائی کورٹ کے برابر ہو گی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا پورے ملک میں تحریک انصاف کے کسی ایک رہنما یا کارکن نے بھی یہ سوال اُٹھایا کہ اتنے اکائونٹ خفیہ کیوں رکھے گئے اور خود جناب چیئر مین نے ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کروانے والے گوشواروں کے ساتھ دیئے گئے بیان حلفی میں غلط بیانی کیوں کی؟

کراچی سے خیبر اور خیبر سے سات سمندر پار دنیا بھر میں پھیلے اوورسیز نونہالان میں سے کیا کسی ایک نے بھی اپنی پارٹی سے یہ پوچھا کہ آپ سچے تھے تو آپ نے کارروائی خفیہ رکھنے کی درخواستیں کیوں کیں؟ کیا سینیٹ سے، قومی اسمبلی سے، کسی وزارت سے، کسی شہر، گائوں یا قصبے سے کسی کارکن یا رہنما نے استعفی نہ سہی قیادت کو کوئی شکوہ بھی لکھ بھیجا کہ یہ سب کیسے ہو گیا اور کیوں ہو گیا؟

مریم نواز، جن کے لہجے کی تلخی بتاتی ہے، کبھی اقتدار میں آ گئیں تو عمران خان اور ان کے رفقاء کے آگ اُگلتے لہجے بھی غنیمت لگا کریں گے۔ جیسے آج کل عمران خان کے دور میں ماضی کے حکمران غنیمت لگنا شروع ہو چکے ہیں۔ دوسروں کی ویڈیوز ہوں تو اعلان ہوتا ہے ابھی بہت کچھ سامنے آئے گا اور اپنی آڈیو سامنے آ جائے تو ندامت کا ایک قطرہ ماتھے پر نہیں آتا۔ اُلٹا دوسروں سے معافی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ کس اعتماد سے انہوں نے فرمایا تھا بیرون ملک تو کیا میری ملک کے اندر بھی کوئی جائیداد نہیں۔ اس سارے دورانیے میں بتائیے کہ ن لیگ کے کسی ایک رہنما نے یا کارکن نے قیادت سے کہا ہو کہ ووٹ کو عزت تو ضرور دیں گے، لیکن ازرہ کرم اپنے مالی معاملات کی کوئی قابل قبول وضاحت تو فرما دیجیے۔

یہاں عالم یہ ہے کہ کیپٹن صفٖدر سے وسائل کی بابت سوال ہوا کہ آپ کے تو ذرائع آمدن محدود ہیں یہ صاحبزادے کی شادی پر اتنا خرچ کہاں سے کیا تو وہ جواب دیتے ہیں میں پیر ہوں، میرے مریدین خرچ کرتے ہیں اور پھر مسکرا کر فرماتے ہیں ملک صاحب کبھی پیروں نے بھی کام کیا۔ پوری تنظیم میں سے کوئی ایک بندہ ایسا نہیں ہوتا جو ان سے عرض کرے کہ صاحب یہ وضاحت ناکافی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کی آمدن کے ذرائع کیا ہیں تو وہ قہقہہ لگاتے ہیں اور فرماتے ہیں اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دے۔ علماء اسلام کی اتنی بڑی اس جمعیت میں کوئی بزرگ ایسا نہیں جو ان سے کہے کہ اعلی حضرت اللہ بے شک جسے چاہے بے حساب رزق دے، لیکن اتنا تو بتا دیجیے وہ بے حساب رزق آپ کو کہاں سے مل رہا ہے۔ بلکہ کہاں کہاں سے مل رہا ہے۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اگلے رو ز طلباء تنظیموں میں تصادم ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں گروہی وابستگی کی بنیاد پر اندھا دھند ٹرینڈ چلنا شروع ہو گئے۔ جمعیت طلباء اسلام نے اپنی مظلومیت کی مہم چلا دی اور اسلامی جمعیت طلباء نے اپنی بے گناہی کی۔ سوچے سمجھے جانے بغیر ملک بھر میں تعصب کی بنیاد پر صف بندی ہو گئی اور جو جس گروہ کا ہمدرد تھا اس کے نزد یک اسی کا گروہ سچ اور حق پر تھا۔ دونوں گروہ اسلام کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا مقصود خدمت اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن دونوں میں سے کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ لڑائی اسلام پر ہوئی یا اپنے تعصب پر؟ اور دونوں گروہوں میں سے کوئی ایک طالب علم بھی ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ ہاں یہاں یہ غلطی ہم نے کی اور وہ غلطی دوسرے نے کی۔ دعویٰ اسلام کی خدمت کا ہے لیکن ترجیح اپنا اپنا گروہ ہے۔

وکیل دنیا بھر کے معاملے میں قانون کی بالادستی کی دہائی دیتے ہیں لیکن اپنی بار قانون یاد رہتا ہے نہ ضابطے۔ صحافیوں پر طارق جمیل ہلکی سی تنقید کر لیں تو یہ باجماعت دہائی دیتے ہیں اور ان سے معافی منگواتے ہیں لیکن مریم نواز انہیں گالی بھی دے لیں تو یہ مودب ہی رہتے ہیں کہ کل کہیں انہیں اقتدار مل گیا تو ہمارے امکانات ہماری گستاخی کی نذر نہ ہو جائیں۔ ٹی وی چینلز پر ریٹائرڈ جرنیل دنیا کے تمام امور پر قوم کی رہنمائی فرماتے ہیں لیکن جب بات ڈکٹیٹرز یا آئین شکنی کی آ جائے تو ان کا تجاہل عارفانہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔

یہی صورت حال ہماری ذاتی زندگی میں ہے۔ ہم دوسروں کو کچھ اور اصولوں کی بنیاد پر پرکھتے ہیں لیکن اپنے لیے ہم نے کچھ ا ور اصول وضع کر رکھے ہیں۔ ترجیح نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی اخلاقیات۔ ترجیح صرف اور صرف اپنا مفاد اور اپنی عصبیت ہے۔ ہم جس گروہ کے ساتھ کھڑے ہوں اور جس کے ساتھ ہمارا مفاد وابستہ ہو، اسی کو ہم سچا اور کھرا سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے گروہ میں کسی خامی کے قائل نہیں اور دوسروں میں ہمیں کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔

سیاسی اور فکری وابستگی ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ لیکن جب ہم یہ طے کر لیتے ہیں کہ جس گروہ سے ہمارا تعلق ہے بس وہی حق پر ہے اور اس کے علاوہ باقی سارے غلط ہیں تو یہاں سے وہ فکری گرہ پڑنا شروع ہوتی ہے جو سماج کو شعوری طور پر اپاہج کر دیتی ہے۔

جب تک یہ نہیں ہوگا کہ عمران خان پر تنقید تحریک انصاف کے اندر سے ہو، آصف زرداری پر گرفت خود پیپلز پارٹی کرے اور نواز شریف سے خود مسلم لیگ ن سوال پوچھے، تب تک یہ سماج شعوری ارتقاء کا سفر طے نہیں کر سکتا۔ یہ غلامی کے طوق ہیں جو بڑی مہارت سے مختلف عنوانات کے ساتھ ہمارے گلے میں ڈال دیے گئے ہیں اور ہم یہ طوق اپنی اپنی عصبیت کا پرچم سمجھ کر تھامے پھرتے ہیں۔

معاشرے میں ایک بانک پن ہونا چاہیے۔ وابستگی بھی ہو، پسند نا پسند بھی ہو لیکن ایک باٹم لائن بھی ہو اور کہیں نہ کہیں وہ مقام بھی آ جائے کہ جہاں وابستگی اور تعلق کے باوجود ایک فرد پورے بانکپن سے کہہ سکے کہ ٹھیک ہے میں تحریک انصاف سے ہوں لیکن عمران خان کی یہ بات درست نہیں ہے۔ ٹھیک ہے میں ن لیگ کا کارکن ہوں لیکن نوا شریف نے یہ بات غلط کہی ہے اور ٹھیک ہے کہ میں پیپلز پارٹی کا ہوں لیکن مجھے آصف زرداری کے موقف سے اختلاف ہے۔

معاشرے حریت فکر سے بنتے ہیں خوشامد اور غلامی سے نہیں۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti