Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Hum Ko To Masjid Aqsa Bhi, Tha, Quran Ka Warq

Hum Ko To Masjid Aqsa Bhi, Tha, Quran Ka Warq

ہم کو تو مسجد اقصیٰ بھی ‘ تھا‘ قرآں کا ورق

مسجد اقصی میں 50 سال پہلے آگ لگی تھی تو مسلم دنیا میں بھی آگ سلگ اٹھی تھی۔ مسجد اقصی آج ایک بار پر جل اٹھی ہے لیکن مسلم دنیا میں برف جیسا ماحول ہے۔ مجھے ڈر ہے کچھ عرصے بعداس سے زیادہ سنگین حادثہ ہو گا اور مسلم دنیا اسرائیل کے حق میں تاویلات تراشنے میں مصروف ہو گی اور فلسطینیوں کو برا بھلا کہہ رہی ہو گی۔

21 اگست 1969 کو جب مسجد اقصی میں آ گ لگی تو مسلم دنیا بھی ساتھ ہی سلگ اٹھی تھی۔ تمام مسلم ممالک اکٹھے ہوئے اور او آئی سی بنائی گئی۔ یہ او آئی سی اصل میں مسجد اقصی ہی کی حرمت کی خاطر بنی تھی۔ چنانچہ اس کے چارٹر کے آرٹیکل 2 میں لکھا ہے کہ یہ مقامات مقدسہ کا تحفظ کرے گی اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی میں تعاون فراہم کرے گی۔

او آئی سی کا اہم ترین اور انتظامی شعبہ جنرل سیکرٹریٹ ہے۔ اس شعبے میں چار اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ہوتے ہیں۔ ایک اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا کام صرف یروشلم کے معاملات کو دیکھنا ہے۔ (کیا آپ کو معلوم ہے یہ سیکرٹری جنرل صاحب کون ہیں)۔ او آئی سی کی چھٹی وزرائے خارجہ کانفرنس میں القدس کمیٹی، کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیٹی کا کام یروشلم اور فلسطین کے معاملات کو دیکھنا تھا۔ اس کمیٹی کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ ہر سال ایک رپورٹ تیار کر کے او آئی سی میں پیش کرے گی۔ (کیا آپ ایسی کمیٹی کو جانتے ہیں اور کیا آپ نے کبھی اس کی کوئی رپورٹ پڑھی اور کیا آپ کو خبر ہے اس کمیٹی کے ممبران کون کون سے رجال کار ہیں)۔

وزرائے خارجہ کی ساتویں کانفرنس میں ایک القدس فنڈ، قائم کیا گیا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ پہلا مقصد یروشلم شہر کے عرب کلچر کا تحفظ تھا اور دوسرا مقصد فلسطین کی آزادی تھا۔ (کیا آپ ایسے کسی فنڈ اور اس کی کارکردگی سے واقف ہیں؟)

یہی نہیں او آئی سی نے آزادی فلسطین کے لیے عسکری جدو جہد کے لیے باقاعدہ ایک ادارہ بنایا تھا۔ اس کا نام تھا " اسلامک آفس فار ملٹری کو آپریشن ود فلسطین"۔ یہ الگ بات کہ تین سال تک اس اس ادارے کا کوئی سربراہ ہی نہیں تھا اور آج خدا جانے یہ ادارہ بھی کہیں موجود ہے کہ نہیں۔

او آئی سی جب قائم ہوئی تو کہا گیا اس کا جنرل سیکرٹریٹ یروشلم میں کام کرے گا اور یہی اس کا صدر مقام ہو گا۔ اوآئی سی کے چارٹر کے آرٹیکل 5(vi) میں لکھا ہے جب تک بیت المقدس آزاد نہیں ہوتا جنرل سیکرٹریٹ عارضی طور پر جدہ میں رہے گا لیکن اس کا مستقل صدر مقام یروشلم ہی ہو گا۔ چنانچہ ایک وقت تھا اسرائیل نے تل ابیب سے دارالحکومت یروشلم منتقل کرنا چاہا تو او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ہو اور ساری دنیا کو دھمکی دی گئی کہ جس جس ملک نے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا ہم اس ملک سے تعلقات منقطع کر لیں گے۔ دو ممالک کے سوا کوئی یہ جرات نہ کر سکا کہ سفارت خانہ یروشلم لے جائے اور ان دو ممالک سے تعلقات منقطع کرنے کی او آئی سی جرات نہ کر سکی۔

او آئی سے نے فیصلہ کیا کہ 21 اگست کو ساری مسلم دنیا میں یوم الاقصی منایا جائے گا۔ (دائیں بائیں دیکھ کر بتائیے کیاکوئی ایک اسلامی ملک بھی ایسا ہے جہاں 21 اگست کو یوم الاقصی منایا جاتا ہو۔ ابھی اگست آنے ہی والا ہے، دیکھ لیجیے گا کون کون سا ملک یہ دن مناتا ہے۔

او آئی سی نے تمام اسلامی ممالک سے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے ڈاک ٹکٹ جاری کیے جائیں اور ان کی آمدنی پی ایل او کو دی جائے۔ کیا کہیں کوئی ایسا ڈاک ٹکٹ جاری ہوا؟ یا جدید دور میں ڈاک ٹکٹ قریبا ختم ہو گئے تو کیا اس کا کوئی متبادل تلاش کیا گیا؟

او آئی سی کا اہم ترین ادارہ " وزرائے خارجہ کی کانفرنس " ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے ا س کا اجلاس کہاں اور کب ہوتا ہے؟ آپ مسلم دنیا کی سنجیدگی کا عالم دیکھیے کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہوتا ہے تو وہیں کہیں بیچ میں تھوڑی دیر کے لیے یہ مل بیٹھتے ہیں، چائے کا کپ پیتے ہیں اور فوٹو سیشن کر کے سرخرو ہو جاتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ساتھ ساتھ او آئی سی کے اجلاس کی کارروائی بھی ڈال دی گئی۔

پچاس سال پہلے مسجد اقصی کو آگ لگائی گئی تو شدید رد عمل آیا۔ اسرائیل کو وضاحتیں دینا پڑیں اور بہانے بنانے پڑے کہ یہ ایک پاگل شخص کی غلطی تھی۔ لیکن اس کے بعد مسلم دنیا مسجد اقصی اور فلسطین کو بھول گئی لیکن اسرائیل اپنے مقصد سے جڑا رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پھر مسجد اقصی سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں اور مسلم دنیا میں احتجاج کی ہمت بھی نہیں۔ یہ آگ کسی پاگل شخص نے نہیں اسرائیل کی ریاستی مشینری نے لگائی ہے لیکن مسلم دنیا سہمی پڑی ہے۔ نہ کوئی اجلاس ہے نہ کوئی غم ہے و غصہ۔ تب آگ لگی تھی تو ادیب اور شاعر بھی تڑپ اٹھے تھے۔ ن م راشد نے کہا تھا " آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم"۔ منظور عارف نے لکھا:

آتش بازی کرنے والوآگ میں لکڑی، لوہا، پتھر جسم سبھی جل سکتے ہیں لیکن جذبے کندن بن کراور دمکنے لگتے ہیں۔ شہزاد احمد نے تڑپ کر لکھا:آگ کی سن کے خبر سینے ہمارے ہوئے شقہم کو تو مسجد اقصیٰ بھی ہے قرآں کا ورقمحمود شام نے دہائی دی:بنت اقصیٰ! اپنی آنکھوں ہم نے دیکھا ہے دھواں وہ دھواں جس سے گریں لاکھوں دلوں پہ بجلیاں نذیر قیصر نے نوحہ لکھاـ:اے خدا دیکھ یہ عہدِ نمرودصحن اقصی میں لہو رنگ ہواجلتے اوراق لیےبجھتی ہوئی شام لیےراکھ میں بکھرے ہوئے دست دعابے لفظ اذاں طاق بینائی میں۔۔۔۔ جلتا قرآن

آج پھر مسجد اقصی میں آگ لگی ہے۔ اوآئی سی چپ ہے اور شاعر ادیب ہم سب گونگے ہو چکے۔ یہ زوال مسلسل کی گھڑی ہے۔ جانے آگا اور کیا دیکھنا باقی ہے۔ زوال اور ذلت جس کسی قوم پر اترتی ہے تو بے سبب نہیں اترتی۔ ہمارے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi