ہم آئین کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں
پارلیمان نے ایک قانون بنایا مگر عدالت نے اسے معطل کر دیا اور عدالت نے ایک فیصلہ دیا لیکن پارلیمان نے اس پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ دلائل اور توجیحات ہزاروں ہوسکتی ہیں لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پارلیمان عدالت کا حکم ماننے کو تیار نہیں اور عدالت نے پارلیمان کے حق قانون کو تسلیم نہیں کیا۔۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے، جب وطن عزیز میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔
ایک طرف جوڈیشل ایکٹوزم ہے، دوسری جانب پارلیمانی ایکٹوزم، بیچ میں آئین پاکستان حیران کھڑا ہے، مجھے کس نہر والی پل پر بلا کر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ بالا دستی کی بحث جاری ہے کہ وطن عزیز میں کون بالادست ہے، آئین، یا آئین بنانے والی پارلیمان یا پھر آئین کی شرح کرنے والی عدلیہ۔ جسٹس مارکنڈے صاحب بھی جنوبی ایشیاء کی بی جمالو کی طرح بیانات سے آگے نکل کر اب باقاعدہ مضامین لکھ کر پاکستانی جورس پروڈنس کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ امر واقعہ مگر یہ ہے کہ تاریخ کی عدالت میں کوئی بھی سرخرو نہیں۔ نہ جوڈیشل ایکٹوزم، نہ پارلیمانی ایکٹوزم۔
جوڈیشل ایکٹوزم کا نامہ اعمال بہت طویل ہے۔ جسٹس منیر صاحب نے جب اس اسمبلی کو توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دیا جو اسمبلی قائد اعظم کی اپنی اسمبلی تھی تو ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں ہے اور اس کی پارلیمان کی ملکہ برطانیہ کے نمائندے کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جسٹس کارنیلیس نے لکھا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی خود مختاری کی توہین ہے اورخود برطانوی کمیشن نے بالفعل جسٹس کارنیلیس کے فیصلے کی توثیق کی، جب اس نے کہا کہ ہم یہاں برطانوی ملکہ کا سفارتی عملہ ہیں، پاکستانی ملکہ کا نہیں۔ لیکن ہمارا جوڈیشل ایکٹوزم اس سے بے نیاز تھا۔
نظریہ ضرورت اور غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کی توثیق کی طویل تاریخ کے باوجود، جب 1973 میں پارلیمان نے آئین بنایا تو اس میں لکھ دیا کہ پارلیمان ہر معاملے پر بحث کر سکتی ہے لیکن پارلیمان کو کسی جج کے کنڈکٹ پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ پابندی پارلیمان نے خود اپنے اوپر لگائی۔ مقصد عدلیہ کا وقار اورا س کا احترام یقینی بنانا تھا۔ یہ الگ بات کہ آج پارلیمان اس آرٹیکل کو خود اپنے ہی ہاتھوں پا مال کر رہی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کی ذمہ دار عدلیہ ہے یا پارلیمان۔ لیکن آئین کا آرٹیکل 68 خود اپنی ہی خالق پارلیمان کے ہاتھوں گھائل ہوا پڑا ہے۔
جوڈیشل ایکٹوزم نے کبھی غیر آئینی اقدامات کی توثیق کی تو کبھی حاکم وقت کویہ اجازت بھی دے دی کہ وہ جب اور جیسے چاہے آئین میں تبدیلی کر سکتا ہے۔ یہ اجازت عدالت کو بھی نہیں تھی۔ لیکن جوڈیشل ایکٹوزم نے یہ اجازت حاکم وقت کو بھی دید ی۔ آئین بے چارہ حیران و پریشان کھڑا رہا، وہ عدالت کے دروازے پر دستک بھی نہ دے سکا۔
جوڈیشل ایکٹوزم جب ریکوڈک میں بروئے کار آیا تو قوم کو 6 کروڑ میں پڑا۔ یہ کسی بیوروکریٹ یا پارلیمانی رہنما کی وجہ سے ہوا ہوتا تو اس کی سات نسلیں مقدمات کا سامنا کرتیں۔ پارلیمان نے قوانین بنائے تو جوڈیشل ایکٹوزم نے کالعدم قرار دے دیے۔ اور خود آئین کی تشریح کی تو ایسے کی کہ گویا آئین ہی ری رائٹ کر دیا۔
لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ پارلیمان سرخرو ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ پارلیمان نے ہر اچھا قانون بھی برے وقت پر بنایا۔ پارلیمان کا بنایا قانون ہی نہیں اس کی شان نزول بھی ایک سوالیہ نشان رہی۔ کبھی جمہوری آمریت قائم کرنے کے لیے شریعت بل کا سہارا لیا گیا تو کبھی نیب کے قوانین میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ ہر ایک دفعہ بتاتی رہی وہ کس کے فائدے کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے رولز اینڈ پروسیجر ز میں تبدیلی کا فیصلہ بھی پارلیمان نے اس لیے کیا کہ یہ ان کے مفادات کا تقاضا تھا۔ ان کے مفادات کو خطرہ نہ ہوتا تویہ اگلے ایک سو سال تک اس قانون کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔
الیکشن ایکٹ میں خامیاں ہی خامیاں ہیں لیکن پارلیمان نے کبھی ان خامیوں کی طرف توجہ نہیں دی لیکن اب جب الیکشن کے اعلان کے اختیار کی بحث چل پڑی تو اپنی ضررت کے تحت الیکشن ایکٹ کی دو دفعات تبدیلی کرنے کے لیے کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ یہی کام عمران خاں کے دور میں بھی ہوتا تھا۔ جب اور جہاں ضرورت پڑتی تھی راتوں رات قانون بنا لیے جاتے تھے۔ قانون سازی کی جتنی بدتر مثالیں ہمارے ملک میں سامنے آئین، شاید ہی کسی جمہوریت میں آئی ہوں۔
ایسے میں پارلیمان کے اوپر جوڈیشل ریویو نہ ہو تو جمہوریت یہاں اکثریت کی آمریت بن جائے۔ لیکن یہاں یہ نزاکت ملحوظ خاطر رکھنا ہوگی کہ آئین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، آئین کی حکمرانی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ یہ جوڈیشل ایکٹوزم کے رحم و کرم پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کی بنیاد جورس پروڈنس پر ہونی چاہیے۔ آج ہی جناب سراج الحق کا بیان شائع ہوا ہے کہ لوگ اب ججز کے چہروں سے پہچان جاتے ہیں کہ یہ فلاں پارٹی کا جج ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سراج الحق اس وقت تنازعے میں فریق نہیں بلکہ ثالث ہیں۔ وہ کشمکش اقتدار کے حریف نہیں اس وقت وہ خیر کی طرف بلا رہے ہیں۔ اگر ان کی بھی یہ رائے ہو تو کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں پارلیمان کی بالادستی کا مطلب اب پارلیمان کی بالادستی نہیں رہا۔ اور المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں آئین اور قانون کی بالادستی کا مطلب آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں رہا۔ ہر دو اطراف سے رونے والوں کے دکھ کچھ اور ہیں اور آنسو کسی اور عنوان سے نکل رہے ہیں۔ پارلیمان کی بالادستی کے نام پارلیمان ہی کے بنائے آئین سے بے نیازی اختیار کی جا رہی ہے اور آئین کی سر بلندی کے لیے بروئے کار آنے والا جوڈیشل ایکٹوزم سموسوں سے ہوتا ہوا اب سٹیٹ بنک تک پہنچ چکا ہے۔
وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق فرماتے ہیں: عدالت نے سارے فیصلے کرنے ہیں تو پارلیمان کی کیا ضرورت؟ یہ بات درست ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ یہ اگر عدالت کا کوئی فیصلہ ماننا ہی نہیں تو پھر پارلیمان کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں نہ پھر جتھے بنا لیے جائیں اوروار لارڈز اپنے اپنے فیصلے کرتے رہیں۔
توہین عدالت کے قانون کے خوف نے اور پارلیمان کے نازک مزاج استحقاق کے مجروح ہو جانے کے ڈر نے اس سماج سے قوت گویائی چھین لی ہے۔ پارلیمان کا معاملہ تو خیر برائے وزن بیت ہی ہے کہ اس کا استحقاق کم ہی مجروح ہوتاہے لیکن اب اس کی حساسیت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ن لیگ کے اعلی سطحی رہنما کہہ چکے ہیں کہ اب ہم توہین وزیر اعظم کا قانون بھی لائیں گے۔
توہین کے اس قانونی طلسم کدے میں، ہمارے پاس اس کے سوا اور کیا راستہ ہے کہ ہم سوال اٹھانے کی گستاخی نہ کریں بلکہ اچھی رعایا کی طرح صرف گولڈن جوبلیاں مناتے رہیں۔