ہیرو جنازے نہیں پڑھتے
اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔۔۔۔ ڈاکٹر اے کیو خان اس فرمان الہی کی جیتی جاگتی تفسیر تھے۔
یہاں عالم یہ ہے کہ اہل اقتدار دو درجن ترجمان، سینکڑوں یو ٹیوبرز اور سوشل میڈیا پر ہزاروں کا لشکر جرار اور دربار سے وابستہ حرف و کلام کے بیوپاریوں کی ساری ہنر کاری کے باوجود نا معتبر رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر اے کیو خان نے ساری قوم کے سامنے اعتراف جرم کیا، پھر بھی سرخرو رہے۔
معلوم انسانی تاریخ میں ایسا حیرت کدہ کہیں دیکھا سنا ہو تو بتائیے کہ ایک شخص قوم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے میں تمہارا مجرم ہوں اور قوم مسکرا کر کہے ارے صاحب جانے دیجیے آپ تو ہمارے ہیرو ہیں۔
دنیا بھر کے نظام تعزیر الٹ پلٹ کر دیکھ لیجیے، کیا کبھی ایسا ہوا کہ ایک شخص بھری بستی میں اعتراف جرم کرے اور بستی تعزیر نافذ کرنے کی بجائے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دے۔ حاکم وقت نے فرد جرم کے اوپر اعتراف جرم رکھ کر اسے بے توقیر کرنا چاہا، خلق خدا نے اس فرد جرم کو چولہے میں ڈالا اور اعتراف جرم کو دل کی مسند پر رکھ لیا۔
یہ جنازہ معمولی جنازہ نہ تھا۔ یہ وہ لاشہ تھا ساری قوم جس کے لواحقین میں شامل تھی۔ کسی کو کچھ خبر نہ تھی تعزیت کس سے کی جائے، اپنے اپنے خانہ ویراں میں سبھی رو رہے تھے۔ یہ جنازہ ای سیون سے نہیں اٹھا تھا، یہ جنازہ پاکستان کے ہر گھر سے اٹھا تھا۔ غالب یاد آتے رہےآتا ہے ایک پارہ دل ہر دل فغاں کے ساتھ،۔
اس سال دو بڑے جنازے اٹھے۔ ایک سید علی گیلانی کا اور دوسرا اے کیو خان کا۔ وزیر اعظم جناب عمران خان دونوں جنازوں میں موجود نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم جنازوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟ یہ افتاد طبع کا آزار ہے یا نرگسیت اور توہم پرستی کا؟ نصرت فتح علی خان اور دلدار پرویز بھٹی جیسے لوگوں کے جنازے میں بھی عمران خان شریک نہیں ہوئے اور جس روز سگے کزن نجیب اللہ کی تدفین ہو رہی تھی، اس رو زڈی چوک میں خان صاحب اپنی سالگرہ منا رہے تھے اورقافلہ انقلاب اس پر مسرت موقع پر کیک کھا رہا تھا۔
ذاتی زندگی کے مسائل سے مگر صرف نظر کیا جا سکتا ہے لیکن قومی زندگی سے نہیں۔ اس وقت عمران خان وزیر اعظم پاکستان ہیں اور پاکستان نے دو ایسے جنازے اٹھائے جو سمجھیے کہ ہر گھر سے اٹھے۔ ایک جنازہ سری نگر کے مقتل میں کھڑے سب سے بڑے پاکستانی کا تھا اور دوسرا جنازہ اس شخص کا تھا جسے قوم محسن پاکستان کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے بھی عمران خان نے ان جنازوں میں شرکت گوارا نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟
محسن پاکستان کا جنازہ سٹیٹ فیونرل تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وزیر اعظم چند کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھا رہے اور اسے جنازے میں شرکت کی تو فیق نہ ہو۔ سکیورٹی کا عذر محض ایک عذر ہے، جنازے میں اگر مراد علی شاہ صاحب آ سکتے تھے تو جناب وزیر اعظم بھی آ سکتے تھے۔ سید علی گیلانی کی نماز جنازہ تو کشمیر ہائوس میں ہوئی تھی، جہاں آزاد کشمیر کے صدر، وزیر اعظم ہی نہیں صدر پاکستان بھی شریک تھے۔ وہاں عمران خان کو کیا خطرہ تھا اور کس سے تھا کہ یہ وہاں بھی نہیں جا سکے۔
کچھ سیانے یہ سمجھانے آئے ہیں کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فرض کفایہ اور فرض عین کی بحث نہیں ہے، یہ قومی ذمہ داری اور احساس کی بات تھی۔ بھارت کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد الکلام کا انتقال ہوا تو آخری رسوم میں مودی موجود تھے حالانکہ مودی کے معاملے میں تو فرض، فرض عین یا کفایہ کی بحث ہی نہیں تھی۔ کیا قافلہ انقلاب کا کوئی مغنی بتا سکتا ہے کہ مودی وہاں کون سا فرض ادا کرنے آیا تھا؟ وہ ایک ہندو ہو کر بھی شریک ہوا کیونکہ وہ اس وقت بھارت کا وزیر اعظم تھا۔ یہ وہ احساس ہوتا ہے جو ذمہ داری کے قالب میں ڈھل جائے تو رویوں کی تہذیب ہو جاتی ہے۔
یہاں نعیم الحق کا انتقال ہوا تو جنازے میں شرکت تو دور کی بات ہے، صاحب نے اہل خانہ سے تعزیت بھی انہیں وزیر اعظم ہائوس طلب کر کے کی۔ بابر اعوان کی والدہ کا انتقال ہوا توانہیں وزیر اعظم آفس بلا کر تعزیت کی گئی۔ ذاتی اور جماعتی معاملات تو خیر وہ جانیں اور ان کے عشاق، لیکن قومی ز ندگی میں یہ رویہ انتہائی تکلیف د ہ ہوتا ہے۔ حیات اجتماعی کے معاملات کسی کی انا، ضد، تکبر، نرگسیت یا افتاد طبع کی بھینٹ نہیں چڑھائے جا سکتے۔ یہ معقولیت کے متقاضی ہوتے ہیں۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ آج بھی وزیر اعظم نہیں، ایک ہیرو ہیں۔ ہیرو باقی مخلوق سے بے نیا زہوتا ہے۔ ہیرو کسی سے محبت نہیں کرتا، اس کے خیال میں صرف اس سے محبت کی جانی چاہیے۔ ہیرو کو یقین ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ سب حشرات الارض ہیں اور یہ صرف اس لیے پیدا ہوئے کہ ہیرو کے قصیدے پڑھیں۔ ہیرو کسی کا احترام نہیں کرتا، وہ سمجھتا ہے کہ احترام صرف اسی کا ہونا چاہیے۔ ہیرو کسی کا دوست نہیں ہوتا اس کے صرف مداح اور چاپلوس ہوتے ہیں۔ دلیل سے پاک اورجنون میں لتھڑے عشاق۔
وہ انسانی جذبات اور احساسات سے بھی بے نیاز ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں وہ سارے ملک کا معشوق شوخ ہوتا ہے اور باقی لوگ اس کے عاشق دیوانہ۔۔ اس کے خیال میں رعایا اس کے نا زکھینچنے کے لیے پیدا کی جاتی ہے۔
اسے کسی تعلق، کسی رشتے، کسی حفظ مراتب کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہیرو شادی کرتا ہے تو سگی بہنوں کو بلانے کا تکلف نہیں کرتا، ہیرو کے دوست مر جائیں تو وہ جنازے تو کیا تعزیت کے لیے بھی ان کے ہاں نہیں جاتا، کسی نواب کے ہاں مہمان ہو اور نواب قتل ہو جائے تو ہیرو جنازے اور تعزیت کا تکلف کیے بغیر وہاں سے نکل جاتا ہے، کزن فوت ہو جائے تو وہ اس سے بے نیا ز ہیپی برتھ ڈے مناتا رہتا ہے۔ ہیرو کی ساری زندگی ایک خاص سانچے میں گزرتی ہے، وہ ان معاملات میں معذور ہوتا ہے۔ اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ قصور ان کا ہوتا ہے جو ایک ہیرو کو وزیر اعظم بنا بیٹھتے ہیں اور پھر بیٹھے سوچتے ہیں کیا ایک وزیر اعظم انسانی اور عوامی جذبات و احساسات سے اس قدر بے نیاز ہو سکتا ہے؟ ان کشتگان ستم کو کوئی بتائے کہ وزیر اعظم نہیں تمہارا واسطہ ایک ہیرو سے ہے۔
ہیرو کسی کو خود سے زیادہ عزت ملتے دیکھے تو اس کا مزاج نازک برہم ہو جاتا ہے۔ ہیرو کی اس ادا کو کچھ احمق نرگسیت بھی کہتے ہیں۔ لیکن ہیرو کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جنازہ چاہے سید علی گیلانی کا ہو یا اے کیو خان کا، ہیرو بے نیاز رہتا ہے۔
ہیرو کسی کے احترام میں جذباتی نہیں ہوتے۔ ہیرو کسی کے جنازے نہیں پڑھتے۔ ہیرو ہیرو ہوتے ہیں۔ ہیرو کو نہیں اپنے انتخاب کو روئیے۔