غیر مذہبی انتہا پسندی ؟
مذہبی انتہا پسندی کے بعدمعاشرے کو اب غیر مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ انتہا پسندی کی یہ دونوں شکلیں تباہ کن ہیں۔ نجات صرف اعتدال میں ہے۔ سماج اگر توازن اور تہذیب کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اسے انتہا پسندی کی ہر شکل کی نفی کرنا ہو گی۔
مذہبی انتہا پسندی کے مظاہر ہمارے لیے اجنبی نہیں، ہم یہ سب کچھ دیکھ چکے۔ اس پر مزید کچھ کہنا تکرارکے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ غیر مذہبی انتہا پسندی کا طریق واردات البتہ مختلف ہے اور یہ حسین عنوانات کے تحت بروئے کار آ رہی ہے۔ آج کا موضوع یہی غیر مذہبی انتہا پسندی ہے جس نے طے کر لیا ہے کہ کہیں کوئی بھی خرابی ہو نشانے پر مذہب، اہل مذہب اور مذہبی شناخت کو رکھنا ہے۔ میں اس رویے کے چند مظاہر آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ رمضان کے ساتھ ہی ہمارے ہاں مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ مہنگائی کی اس واردات کے پیچھے بہت سارے عوامل ہیں۔ سماجی بھی، معاشی بھی اور انتظامی بھی۔ لیکن ان سب عوامل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اگلے روز ایک پوسٹ پر داد و تحسین نچھاور ہو رہی تھی جس میں لکھا تھا:" وہ ماہ مقدس آنے والا ہے جب متقی حضرات 10 روپے کی چیز 100 روپے میں بیچ کر مسجد میں جا کر جماعت سے نماز پڑھیں گے"۔ یہ بظاہر مہنگائی کے خلاف پوسٹ ہے لیکن نشانے پر مسجد اور نمازی ہیں۔ گویا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ بازار تو اہل تقویٰ سے بھرا پڑا ہے، کسی دنیا دار کی تو وہاں کوئی دکان ہی نہیں اور ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کی ذمہ داری صرف ان دکانداروں پر عائد ہوتی ہے جنہیں نمازوں کی بہت فکر رہتی ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اہل مذہب کا کیا دھرا ہے۔
ایک اور پوسٹ میرے سامنے رکھی ہے:" مسجد میں سیمنٹ کی بوری اس وقت دیں جب محلے میں آٹے کی بوری لینے والا کوئی نہ ہو"۔ بڑے انسان دوست طریقے سے گویا یہ تاثر دیا گیا کہ محلے میں بھوک کی وجہ یہ ہے کہ آپ سب کچھ مساجد کو دے دیتے ہیں۔ یعنی خدمت خلق کا ناگزیر پہلو مسجد کی نفی کی صورت پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کبھی نہیں کہا جائے گا کہ یورپ کے دورے کم کر کے یا سیاحت کے مزے محدود کر کے یا اپنی پراڈو کی جگہ سوزوکی لے کر یا نسبتا سستا موبائل لے کر یا مہنگے برانڈز کی بجائے ذرا کم مہنگے سوٹ زیب تن فرما کر باقی کے پیسوں سے محلے کے غریب کی مدد کرو۔ نشانے پر مسجد ہے اور مسجد کو دی جانے والی سیمنٹ کی بوری سے ہونی والی تکلیف انہیں بے چین کیے ہوئے ہے۔ اپنی ساری ہم نصابی سرگرمیاں سلامت، بس محلے کی مسجد کو دی گئی سیمنٹ کی ایک بوری انہیں گوارا نہیں۔
حج کا موقع آتا ہے تو یہ دہائی دیتے ہیں اتنے پیسے اگر حج اور عمرے پر خرچ کرنے کی بجائے غریبوں پر خرچ کر دیے جائیں تو کیا ہی کمال ہو جائے۔ ایسا تقابل کبھی اپنے غیر ملکی دوروں کے بارے میں نہیں کیا جاتا۔ این جی اوز کے اکثر اجتماع مہنگے ہوٹلوں میں ہوتے ہیں جہاں مخصوص شرکاء بلا کر کارروائی ڈالی جاتی ہے تا کہ ڈونرز مطمئن ہو جائیں اور مزید ڈالر آتے رہیں، کبھی یہ نہیں کہا جائے گا کہ این جی اوز کے یہ اجتماع ذرا سستے ہوٹلوں میں کر کے باقی پیسے غریب کو دے دیے جائیں۔ تقابل ہمیشہ مذہبی سرگرمی سے ہو گا۔ کبھی حج سے، کبھی مسجد سے، کبھی عمرے سے، کبھی قربانی سے۔ بظاہر یہ انسان دوستی ہے، اندرون خانہ واردات مگر کچھ اور ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طبقے پر یہ طعنہ زن ہوتے ہیں غریب پروری میں بھی وہی طبقہ ان سے آگے ہے۔ عطیات اور صدقات دینے میں پاکستان کا یہ روایتی معاشرہ آج بھی دنیا میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مذہب ایک ہمہ جہت تصور ہے۔ یہاں عبادات بھی ہیں اور خدمت خلق بھی۔ خدمت خلق کے میدان میں بھی، امر واقع یہ ہے کہ یہ مذہبی طبقہ سب سے نمایاں ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا ہسپتال اور خیراتی ادارے، اہل مذہب آپ کو سب سے آگے نظر آئیں گے۔ یہ کیسی دیانت ہے کہ طنز اور دشنام کے نشانے پر یہی مذہبی طبقہ ہو اور ناقدین محض چند میٹھے میٹھے ٹویٹ اور فیس بک پر اقوال زریں نما گمراہ کن پوسٹس لگا کر خود کو سرخرو تصور کر لیں۔ یہ خیر خواہی نہیں جنون اور جہالت ہے۔
دنیا میں کہیں کوئی سائنسی ایجاد سامنے آئے گی تو کہا جائے گا دنیا نے یہ بھی کر لیا اور ہمارا مولوی ابھی تک فلاں بحث میں پھنسا ہے۔ علم کی دنیا میں مگر یہ تقابل ہی نا معتبر ہے۔ دنیا کے سائنسدانوں کا تقابل آپ کو اپنے سائنسدانوں سے کرنا چاہیے، ، مولوی سے نہیں۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت مسٹر فواد چودھری کے پاس ہے مولانا فواد چودھری کے پاس نہیں ہے۔ ہر شخص کی نجی زندگی کے احترام کا درس دیا جائے گا لیکن کوئی کرکٹر اگر نماز اور دین کی طرف رجوع کرے گا تو اس کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا جائے گا۔
یہ رویہ ایک نفسیاتی عارضے کی خبر دے رہا ہے۔ آپ اسے غیر مذہبی انتہا پسندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جیسے مذہبی انتہا پسند کو ہر معاملے میں یہودی سازش نظر آ جاتی ہے ایسے ہی غیر مذہبی انتہا پسند کو ہر معاملے میں مولوی کا قصور دکھائی دیتا ہے۔
معاشرہ ان دونوں انتہائوں کا یرغمال ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف سے مطلع کہا جاتا ہے اور واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ پھر دوسری جانب سے مقطع کہا جاتا ہے اور مکر مکر کے مطالبے ہوتے ہیں جیسے ہر مینڈک اپنے کنویں کو کل کائنات سمجھ کر داد طلب ہوتا ہے۔ سماج اگر ارتقاء چاہتا ہے تو اسے اس مشاعرے سے بے نیازہو کر اعتدال کی طرف آنا ہو گا۔ ہم سب میں غلطیاں ہیں اور ہم سب میں خوبیاں ہیں۔ کوئی گروہ عقل کل نہیں۔ نفرت کے بیوپاریوں کو نظر انداز کرکے اعتدال کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیے، مذہبی انتہا پسندی سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوا تو غیر مذہبی انتہا پسندی بھی کسی خیر کا باعث نہیں بنے گی۔