چھوٹا سا قطر اتنا ’ بڑا‘ کیسے ہو گیا؟
پاکستان سے 76 گنا کم رقبے اور لاہور سے 4 گنا کم آبادی والے قطر کی سفارتکاری دیکھیے کہ نصف درجن سے ز یادہ بین الاقوامی تنازعات میں یہ ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے اس کے پاس آخر وہ کیا ہنر ہے جو ہمارے پاس نہیں؟
لبنان میں مسئلہ ہوتا ہے تو ثالث قطر ہوتا ہے، حماس اور الفتح میں جھگڑا ہوتا ہے تو ثالثی قطر کرتا ہے، یمن میں حوثی باغیوں اور حکومت کو ایک میز پر بٹھانا ہو تو ثالث قطر ہوتا ہے، جبوتی اور اری ٹیریا میں تنازع پیدا ہوتا ہے تو وہاں بھی ثالثی کی ذمہ داری قطر اٹھاتا ہے، سوڈان اور چاڈ میں جھگڑا ہوتا ہے تو ان کی ثالثی بھی قطر کراتا ہے اور ان کے مذاکرات دوحہ میں ہوتے ہیں اور اب طالبان اور امریکہ میں معاملات طے پاتے ہیں تو یہ بھی قطر کی ثالثی میں دوحہ میں ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ چھوٹا سا قطر اتنا بڑا، کیسے ہو گیا؟
چونکہ خواب دیکھنے کے لیے نیند کی شرط نہیں ہوتی اس لیے از رہِ بے تکلفی ہمارے وزرائے کرام بھی جاگتی آنکھوں سے امریکہ اور چین کے درمیان مذاکرات اور ثالثی کے خواب دیکھتے پائے جاتے ہیں۔ حقیقت کی دنیا مگر خوابوں سے مختلف ہوتی ہے۔ البتہ کل کو اگریہ خبر آ جائے کہ چین اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا پہلا دور شروع ہو چکا ہے یا روس اور یوکرائن قطر کی ثالثی پر متفق ہو گئے ہیں، تو کم ازکم مجھے کوئی حیرت نہیں ہو گی۔
دنیا کی دنیا جانے، ہمیں کیا؟ لیکن یہ امریکہ طالبان تنازعے میں قطر کی ثالثی بطور قوم ہمیں دعوت فکر دے رہی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے کسی مقام کا انتخاب کرنے کا وقت آیا تو افغان حکومت کی ترجیحات میں سعودی عرب اور ترکی شامل تھے لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے نام پر اتفاق ہوا۔ سوال یہ ہے کہ قطر میں وہ کیا خوبی تھی کہ دونوں قوتوں کا وہ انتخاب قرار پایا۔
ماضی میں جب طالبان کی حکومت تھی تو اسے تسلیم کرنے والوں میں بھی قطر شامل نہیں تھا۔ قطر میں طالبان کا کوئی سلیپنگ سیل بھی نہیں تھا۔ امریکی حملوں کے درمیان طالبان کی کوئی پناہ گاہ بھی قطر میں نہیں تھی۔ قطر میں ایسا کوئی مدرسہ بھی نہیں تھا طالبان جہاں کے فارغ التحصیل ہوں۔ طالبان قیادت کی قطر میں نہ کوئی دوستیاں تھیں نہ رشتہ داریاں۔ پھر بھی طالبان نے قطر کا انتخاب کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟
امریکہ کی اس وار آن ٹیرر، میں بھی قطر کا کوئی ٹھوس کردار نہیں تھا۔ نہ وہ امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ نہ اس کے اڈوں سے امریکی ڈرون اڑتے رہے۔ نہ ہی اس وار آن ٹیرر کی اس نے کوئی قیمت ادا کی۔ پھر بھی امریکہ نے اس پر اعتبار کیا۔ سوال وہی ہے کہ کیوں؟
طالبان اور امریکہ سے ہٹ کر، ایسا بھی نہیں ہے کہ قطر افغانستان میں سٹیک ہولڈر ہو۔ نہ اس کے پاس لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزین ہیں، نہ اس کی کسی پناہ گزین کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی ہے۔ قطر کی کوئی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی۔ قطر اور افغانستان کے درمیان کوئی تاریخی، ثقافتی اور لسانی روابط بھی نہیں ہیں۔ نہ اس کے شہریوں پر ڈرون حملے ہوئے نہ اسے خود کش حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ وہاں کبھی تحفظ افغانستان ریلی نکلی نہ دوحہ میں کبھی فتح مبین کانفرنس منعقد ہو سکی۔ نہ وہاں افغان امور کے ماہرین کے غولوں کے غول پھر رہے ہیں نہ ہی وہاں سوشل میڈیا پر کبھی فتح کابل کے قصیدے کہے گئے۔ پھر افغانستان کے معاملے میں قطر کی حساسیت اور فعالیت کی وجہ کیا ہے؟
اگر اس کا جواب یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر بہت طاقتور ہے تو مسلم دنیا میں اس سے زیادہ طاقتور قوتیں موجود ہیں۔ ان میں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تو وہ ممالک ہیں جنہوں نے ماضی میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر رکھا تھا۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں طالبان کو صرف تین ممالک نے تسلیم کیا ہوا تھا۔ دو یہ تھے اور تیسرا پاکستان تھا۔ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے امریکہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں تو کیا دیگر خلیجی ممالک کے امریکہ سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔
اگر اس کا جواب یہ ہے کہ قطر امریکہ کی پراکسی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی پراکسی پر طالبان نے کیسے بھروسہ کر لیا؟ کیا پھر طالبان اور امریکہ کو ایک ہی چیز سمجھا جائے؟ اگر اس کا جواب ہاں، میں ہے تو امریکہ نے وار آن ٹیرر کیا کابلی پلائو کھانے کے لیے شروع کی تھی؟ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ قطر نے کبھی دوسرے ممالک میں مداخلت نہیں کی، اس لیے اس کا اعتبار زیادہ تھا تو کیا عرب سپرنگ میں قطر نے شام اور لیبیا کے مسلح باغیوں کو تعاون فراہم نہیں کیا؟ کیا وہ خلیجی سیاست کے تنازعات کا متحرک کردار نہیں رہا اور کیا اسی وجہ سے عرب دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات تنائو کا شکار نہیں رہے؟
سعودی عرب اور یو اے ای کے ابھی حال ہی میں قطر سے تعلقات شدید تنائو کا شکار رہ چکے ہیں۔ سعودی عرب، بحرین، مصر اور یو ای اے قطر کے ساتھ قطع تعلقی تک جا چکے ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان بھی ایک غیر محسوس سا تنائو رہا ہے ا ور قطر واضح طور پر ترکی کے ساتھ کھڑا رہا۔ مزید یہ کہ الجزیرہ نیٹ ورک بھی قطر ہی کا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے بھی کسی کو اختلاف نہیں اور ہے تو اس کا اعلانیہ اظہار کم از کم نہیں کیا گیا کہ قطر امریکہ طالبان معاملات میں سہولت کار کا کردار ادا کرے اور بین الاقوامی سیاست میں اپنے سائز سے بڑا کھلاڑی بن کر سامنے آئے۔
امریکہ کا معاملہ بھی عجب ہے۔ ایران کے راستے ملا منصور پاکستان داخل ہوں تو ان پر ڈرون حملہ ہو جاتا ہے۔ لیکن طالبان کی قیادت قطر میں نہ صرف قیام پزیر رہتی ہے بلکہ باقاعدہ ایڈریس کے ساتھ قیام پزیر رہتی ہے لیکن وہاں کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ کوئی اس سے ڈومور تک کا مطالبہ نہیں کرتا۔ کسی کو اس سے شکوہ نہیں ہوتا۔ کوئی اس کا بازو نہیں مروڑتا۔ دوسری طرف ہم ہے ہزاروں لاشے اٹھا کر اور انفرا سٹرکچر برباد کروا کر بھی ہم امریکہ کے نزدیک بھی ناقابل اعتبار ہیں اور طالبان کے آ جانے کے باوجود مسائل ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔
بین الاقوامی سیاست میں قطر کا یہ کردار میرے جیسے طالب علم کے لیے ایک معمہ ہے۔ میں یہ معاملہ سمجھنا چاہتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے ملک کے سینیئر تجزیہ کار وں کے ہاں قطر کی خارجہ پالیسی کبھی زیر بحث ہی نہیں آئی۔ یہاں صرف قطری خط پر مضامین باندھے جاتے ہیں اور داخلی سیاست کے حساب برابر کرتے کرتے ہم بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتیں یکسر نظر اندا زکیے بیٹھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں اپنے گندے کپڑے دھونے کی جگہ گھر میں ہی تلاش کرنی چاہیے اور داخلی سیاست کے آزار سے امور خارجہ کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ ہے کوئی ہم سا؟