بیوروکریٹ کیا آسمان سے اترے ہیں؟
فردوس عاشق اعوان کا لب و لہجہ انتہائی غیر شائستہ تھا تو بیوروکریسی کا رد عمل بھی انتہائی بے ہودہ ہے۔ لازم ہے کہ جہاں فردوس عاشق اعوان کے غیر مہذب طرز گفتگو کی مذمت کی جائے وہیں بیوروکریسی کی رعونت پر بھی بات ہو۔
کل جب یہ واقعہ سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر غالب طبقہ وہ تھا جس نے فردوس عاشق اعوان کی مذمت کی۔ خود میں بھی اسی طبقے میں شامل تھا اور مجھے سچ پوچھیے تو یہ طرز عمل دیکھ کر گھن آنے لگی۔ خاتون افسر نے گالی کے جواب میں کوئی ر د عمل دینے کی بجائے باوقار اندازسے موقع سے ہٹ جانا مناسب سمجھا تو اچھا لگا۔ ایک نجیب انسان کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس واقعے پر بیوروکریسی کی جانب سے جس رد عمل کا مظاہرہ کیا وہ بھی کم تکلیف دہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیوروکریسی کے اجتماعی رد عمل میں جو رعونت ہے وہ زیادہ قابل نفرت ہے۔
فردوس عاشق اعوان کے اس طرز عمل پر ہمارا اختلاف یہ ہے کہ کسی وزیر یا مشیر کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ کسی کی یوں تذلیل کرے۔ یہ شرف انسانی سے گرا ہوا رویہ تھا۔ لیکن بیوروکریسی کا رد عمل یہ بتا رہا ہے کہ اس کا اختلاف بالکل مختلف ہے۔ اس موقف کا انسانیت یا شرف انسانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا غصہ یہ ہے کہ ہم بیوروکریٹوں کے ساتھ اس لہجے میں بات کیوں کی گئی۔ اس رد عمل کا تعلق تہذیب اور انسانی قدروں سے نہیں اس کا تعلق رعونت سے ہے۔ وہ ایک جتھے کی صورت ناراض ہیں اور رد عمل دے رہے ہیں کہ ہم جو عام انسانوں سے اعلی، برتر اور جدا ہیں ہمارے ساتھ بھلا کوئی اس لہجے میں کیسے بات کر سکتا ہے جس لہجے میں ہم اپنے سے کم تر عام شہریوں سے بات کرتے ہیں۔ ایک طرف اگر بد کلامی ہے تو دوسری جانب رعونت۔ سماج میں اگر عزت نفس اور اقدار کے باب میں کوئی حساسیت پائی جاتی ہے تو لازم ہے ان دونوں رویوں کی نفی کی جائے۔ یہ دونوں مناظر کریہہ ہیں۔
وقوعہ کے بعد چیف سیکرٹری کا رد عمل آیا کہ میں نے وزیر اعلی پنجاب کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے، یہ کافی تھا، اگر چہ یہ بھی قدرے غیر ضروری تھا۔ چیف سیکرٹری کو کیا آج تک یہ کبھی یہ توفیق ہوئی کہ اس بیوروکریسی کے ہاتھوں تذلیل کرانے والے دیگر سرکاری ملازمین کے حق میں بھی کبھی منہ مبارک میں رکھی زبان کو حرکت دیں۔ ابھی کل ہی ایک صاحب نے ننکانہ صاحب کی ضلعی انتظامیہ کا حکم مجھے واٹس ایپ کیا جس میں سکولوں کے اساتذہ کو پابند کیا گیا کہ تمام مرد اور خواتین عید کے ایام میں بھی سکول سے ڈینگی مار سرگرمیوں کی تصاویر بھیجیں گے۔ کیا بیوروکریسی کی ایسی رعونت پر بھی کبھی چیف سیکرٹری صاحب بد مزہ ہوئے؟ ایک سیکرٹری تعلیم کسی ضلع کا دورہ کرنے نکلتا ہے تو اس وائسرائے کے انتظار میں شام تک سٹاف کو روک کر بٹھایا جاتا ہے کہ لاٹ صاحب تشریف لا رہے ہیں ان کی آرتی اتارنے کو رک جائیے۔ گھر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
بیوروکریسی نے ایک جتھے کی صورت رد عمل دیا ہے۔ ڈی ایم جی ایسوسی ایشن پنجاب، سول سروسز اکیڈیمی ایلومینائی ایسوسی ایشن، اور بہت سارے ڈپٹی کمشنرز وغیرہ کا رد عمل بتا رہا ہے کہ ایک جتھہ اس بات پر تلملا رہا ہے کہ ہم تو شاہی خاندان ہیں، دوسروں کی تذلیل کرنا تو ہمارا حق تھا، یہ تو صرف ہم تھے جو پرانے وقتوں کے والیان ریاست کی طرح محلوں میں رہتے ہیں اور عام آدمی کا ہماری بارگاہوں تک داخلہ منع ہے، باہر ہم نے دربان کھڑے کر رکھے ہیں، وسائل پر ہمارا گویا موروثی حق ہے تو بھلا ہمارے شاہی خاندان کے ایک فرد کے ساتھ کوئی بے ادبی کر دے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
آپ غور کیجیے، عام لوگ بھی فردوس عاشق اعوان کے رویے پر تنقید کر رہے ہیں اور بیوروکریسی بھی لیکن دونوں میں کتنا فرق ہے؟ عام آدمی کا غصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کی مشیر نے ایسی بد اخلاقی کیوں کی لیکن بیوروکریسی کا دکھ یہ ہے کہ " ہمارے " شاہی خاندان کے فرد کی شان میں بے ادبی کیوں کی گئی۔ کارٹل کی صورت جو رد عمل دیا گیا اس میں رعونت کا تعفن ہے اور یہ رد عمل فردوس عاشق اعوان کے رویے سے زیادہ خطرناک ہے۔ جو اس مبینہ " شاہی خاندان" کی اجتماعی نفسیاتی گرہ کی خبر دے رہا ہے۔
بیوروکریسی جس انداز تخاطب پر اتنی ناراض ہے، کیا عام لوگوں کے ساتھ وہ بھی اسی رعونت سے مخاطب نہیں ہوتی؟ بھاری بھرکم تنخواہیں اور حیران کن مراعات اور موج میلے، یہ سب کہاں سے آتا ہے؟ یہ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ اصول قائد اعظم طے کر گئے ہیں کہ بیوروکریسی عوام کی نوکر ہے۔ پبلک سرونٹ کا یہی ترجمہ بنتا ہے۔ لیکن ان کے دفاتر میں عام آدمی کی جس طرح تذلیل ہوتی ہے اس کا تصور ہی پریشان کن ہے۔ ٹوئٹر پر دو چار حسن اخلاقی کی کارروائیاں ڈال کر بیوروکریسی اگر خود کو سرخرو سمجھتی ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ عوام کی میانہ روی ہے وہ پھر بھی فردوس عاشق اعوان پر تنقید کر رہی ہے ورنہ لوگ بیوروکریسی کے رویے کے رد عمل میں سوچتے تو وہ فردوس عاشق اعوان سے شکوہ کر رہے ہوتے کہ " آپا! بس صرف اتنا ہی "۔
بیوروکریسی کو انسانی سطح پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔ 80، 90 اور 100 کنال کی سرکاری رہائش گاہوں میں رہنے والے یہ صاحبان خود کو وائسرائے سمجھتے ہیں تو اس میں قصور حکومت کا بھی ہے۔ اساتذہ تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کریں تو وزیر داخلہ آنسو گیس استعمال کر لیتا ہے کہ موقع ہے چیک کر لیں لیکن بیوروکریسی کی تنخواہیں اور مراعات بلاوجہ بڑھتی رہتی ہیں۔ کاش چیف سیکرٹری کو اس وقت بھی ایسے ہی غیرت آئی ہوتی، جب دور دراز سے آئی خواتین اساتذہ کو اسلام آباد رات حولات میں گزارنا پڑی تھی۔ کیونکہ انہوں نے تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے کی گستاخی کر لی تھی۔
بیوروکریسی اگر جتھے کی صورت رد عمل دے گی تو عوام اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ عوام جانتی ہے یہ جتھہ خود کتنا مہذب ہے۔