بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے 14ہزار طلباء کا مقدمہ
کیا بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کو کچھ احساس ہے کہ اس کے فیصلہ سازوں کی غفلت کی وجہ سے 14 ہزار طلباء کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے اور کیا پارلیمان میں بیٹھے عوامی نمائندوں کو کچھ خبر ہے کہ یونیورسٹی شعبہ قانون کے طلباء کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے؟ وطن عزیز میں یونیورسٹیوں کو دیکھنے کے لیے کوئی قانون ضابطہ ہے یا انہیں اس بات کی مکمل آزادی ہے کہ یہ جب اور جہاں چاہیں ریاست کے اندر ریاست بنا لیں، کوئی قانون اور کوئی اخلاقی تقاضا ان کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتا۔ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے یہ طلباء شعبہ قانون سے ہیں۔ ان کا تین سالہ ایل ایل بی سیشن 2018 میں شروع ہوا۔ اس سیشن کو 2021 میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔ یونیورسٹی نے ان طلباء کو تماشا نہ بنایا ہوتا تو آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں یہ طلباء وکالت کر رہے ہوتے اور عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہوتے۔
طلباء نے پارٹ ون کا امتحان دیا۔ اس کا رزلٹ 90 دن میں جاری کیا جانا چاہیے تھا لیکن یہ رزلٹ ڈیڑھ سال تک روک لیا گیا۔ اور فیسیں دینے کے بعد اور امتحان دینے کے بعد صرف رزلٹ حاصل کرنے کے لیے طلباء کو ہائی کورٹ جانا پڑا۔ تب جا کر رزلٹ جاری ہوا۔ مارچ 2021 میں۔ یعنی غور فرمائیے کہ جس 2021 میں یہ پورا سیشن ہی مکمل ہو جانا چاہیے تھا اس 2021 میں صرف پہلے سیشن کا رلٹ جاری ہوا ہے۔
دو سیشن ابھی باقی ہیں۔ اور دور دور تک کوئی خبر نہیں کہ دوسرا سیشن کب شروع ہو گا۔ دوسرا سیشن تو دور کی بات ہے ابھی تک یونیورسٹی نے پہلے سیشن کا سپلیمنٹری امتحان بھی نہیں لیا۔ سوال یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے قانون کے طلباء کو ڈگری مکمل کرنے کے لیے کتنے ہزار سال مزیدانتظار کرنا ہو گا؟ حیرت ہوتی ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کے فیصلہ ساز کس بے رحمی سے بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے ہیں اور انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ ہر بچے کے ساتھ کتنے خواب اور کتنی حسرتیں جڑی ہوتی ہیں۔ ہم انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے معاملات کو رو رہے تھے لیکن اب معلوم ہوا کہ بہائولدین زکریا یونیورسٹی کے حالات بھی ویسے ہی ہیں۔ اپنی اپنی یونیورسٹی اور اپنا اپنا راجواڑا۔
معاملہ کیا ہے۔ یہ بھی پڑھ لیجیے تا کہ سر پیٹنے میں آسانی رہے۔ جب پاکستان بار کونسل نے قانون بنایا کہ آئندہ ایل ایل بی کی ڈگری تین سال کی بجائے پانچ سال کے کورس ورک کے بعد دی جائے تو یہ گنجائش بھی رکھی کہ جو پروگرام چل رہے ہیں وہ تین سال میں ہی ختم ہوں گے اور نئے داخلے پانچ سال کے پروگرام کے تحت ہوں گے۔ چنانچہ مبینہ طور پر بعض پر ائیویٹ کالجز نے لوگوں سے یہ کہہ کہہ کر کہ تین سال میں لاء کرنے کا یہ آخری موقع ہے، کافی فیسیں بٹوریں اور طے شدہ اندا ز سے کلاسز کا انعقاد کیے بغیر ہی فیسیں لے کر داخلے بھیج دیے۔
یہاں سے کچھ مسائل پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی کا خیال ہے کہ بے ضابطگی ہوئی ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ یونیورسٹی بے ضابطگی کی نوعیت اور اس کے ذمہ داران کا تعین کرتی اس نے تمام طلباء کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا۔ طلباء نے یونیورسٹی میں احتجاج کیا، گورنر ہائوس کے سامنے احتجاج کیا، دھرنے دیے، جلوس نکالے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے پاس اس سے زیادہ اہم کام کرنے کو ہیں، ایک نے حکومت گرانی ہے دوسرے نے بچانی ہے۔ ایسے میں کس کے پاس وقت ہے کہ طلباء کے چھوٹے سے مسئلے میں برباد کرتا پھرے؟
جب جماعت اسلامی کے سینیٹر جناب محمد مشتاق نے معاملہ سینیٹ میں اٹھا یا تو یونیورسٹی کو پہلی بار معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ لیکن یونیورسٹی کا 16 فروری کا نوٹی فیکیشن بتا رہا ہے کہ یونیورسٹی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شریک جرم نہ ہوتی تو مخبری بھی کرتی اور مسئلہ حل بھی کر لیتی۔ شریک جرم سے یہ دونوں کام نہیں ہوتے۔ رجسٹرار صاحب نے نوٹی فیکیشن میں لکھا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی فائنڈنگز یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سنگین نوعیت کی کرپشن اور بد عنوانی ہوئی ہے۔ لیکن حیران کن طور پر نہ تو اس کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے اور نہ ہی مجرمان کی شناخت کی گئی ہے۔
بیماری تو رجسٹرار صاحب نے ٹھیک پکڑی لیکن ان کے نتائج فکر شرمناک نہیں تو افسوسناک ضرور ہیں۔ جرم کی نشاندہی کرنے میں یونیورسٹی ناکام رہی، مجرمان کا تعین نہیں ہو سکا تو یہ بھی یونیورسٹی کی نا اہلی اور غفلت ہے لیکن تعزیر کا کوڑا طلباء کی پشت پر برسا دیا گیا ہے۔ ذرا رجسٹرار صاحب کی بے نیازیاں دیکھیں۔ اس نوٹی فیکیشن میں فرماتے ہیں کہ چونکہ معاملہ اہم اور فوری نوعیت کا ہے اس لیے چیئر مین سینڈیکیٹ ایک اور کمیٹی تشکیل دیں گے جو سارے معاملے کو دیکھتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔ جب تک یہ کمیٹی رپورٹ نہیں دیتی اور پھر جب تک اس رپورٹ کو سینڈیکیٹ کی جانب سے منظور نہیں کیا جاتا تب تک ان طلباء کا کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔
سرکاری نوکری لگی ہو اور اچھے گریڈ میں لگی ہو اور ہر ماہ لگی بندھی تنخواہ اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو جاتی ہو تو ایسی ہی بے نیازی جنم لیتی ہے اور ایسے ہی لطیفے سر زد ہوتے ہیں۔ یعنی ایک طرف عالم یہ ہے کہ طلباء کے تین چار سال برباد ہو چکے اور دوسری جانب رجسٹرار صاحب فرما رہے ہیں کہ معاملہ اہم اور فوری نوعیت کا ہے۔ اس اللہ کے بندے سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ معاملہ اہم اور فوری نوعیت کا ہے تو تین سالوں سے آپ لوگ ا سے حل کیوں نہیں کر پائے؟ 2018 کا سیشن ہے جسے 2021میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا اور ابھی پارٹ ون سے آگے بات نہیں بڑھ سکی، اس سستی اور اس مجرمانہ غفلت کے بعد یہ لفاظی کسی جرم سے کم نہیں کہ معاملہ اہم اور فوری نوعیت کا ہے۔
یونیورسٹی کے معاملات میں کرپشن ہوتی رہی تو اس کی سزا طلباء کو کیوں؟ وائس چانسلر اور رجسٹرار وغیرہ کو کیوں نہیں؟ یہ کیسی بے نیازی ہے کہ طلباء کی ز ندگی کے قیمتی تین چار سال برباد کر دیے گئے لیکن یونیورسٹی سے ابھی تک ذمہ دار اہلکاروں کا تعین نہیں ہو رہا؟ کہیں اس ملی بھگت میں یونیورسٹی کے اعلی افسران تو ملوث نہیں جن کے نامہ ا عمال پر اب پردہ ڈالا جا رہا ہے؟
مزید ظلم یہ ہے کہ اس تازہ نوٹی فیکیشن میں کوئی ٹائم فریم نہیں ہے کہ چیئر مین صاحب کتنے نوری سالوں میں یہ کمیٹی تشکیل دیں گے اور کتنے ہزار سالوں میں یہ کمیٹی رپورٹ تیار کرے گی اور پھر کتنی صدیوں میں اس کی منظوری دی جائے گی۔
ہزاروں طلباء کا مستقبل ملتان کی اس یونیورسٹی نے دائو پر لگا دیا لیکن ملتان سے تعلق رکھنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کو پرواہ ہی نہیں۔ سینیٹ میں آواز بھی اٹھائی تو کے پی کے کے سینیٹر محمد مشتاق نے۔ یہ جو باقی عوامی نمائندے ہیں ان کی کیا افادیت ہے؟