اٹھارویں ترمیم: چند اہم سوالات
اٹھارویں ترمیم ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ خبر گردش میں ہے کہ حکومت اس میں کچھ معنوی تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔ حزب اختلاف اس پر مضطرب ہے اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عصبیت کی بنیاد پر اگلے چند روز میں صف بندی نمایاں ہو جائے گی۔
سیاسی صف بندی کا آزار یہ ہوتا ہے کہ اس کے لشکری اپنی رائے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ گروہی عصبیت کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں۔ یوں ساری بحث خلط مبحث کا شکار ہو جاتی ہے۔ مناسب یہ ہو گا اس سارے معاملے کو عصبیت سے بالاتر ہو کر دلیل کی بنیاد پر دیکھا جائے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کیا، کیا آئین پاکستان میں کوئی ممانعت ہے؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ جس بات پر آصف زرداری اور نواز شریف کا اتفاق ہو جائے اسے" اجماع امت" تصور کیا جائے گا اور اس سے انحراف کی گنجائش نہیں ہو گی۔ آئین میں اس وقت 25 ترامیم ہو چکی ہیں۔ اب اگر 26 ویں ترمیم بھی ہو جاتی ہے تو اس بات کا کوئی خطرہ نہیں کہ آسمان ٹوٹ کر گر پڑے۔
خود بھٹو صاحب نے جن کے دور میں آئین بنا، ا س میں کئی ترامیم کیں۔ بات چل ہی نکلی ہے تو یاد دلاتا چلوں کہ یہ بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے آئین میں تیسری ترمیم متعارف کراتے ہوئے سیاسی قیدیوں کے حقوق کو محدود تر کر دیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت بھٹو صاحب نے یہ اختیارات حاصل کر لیے تھے کہ سیاسی قیدیوں کو غیر معینہ مدت تک قید میں رکھا جا سکے۔ اس کار خیر کے لیے بس اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ فلاں شخص ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس الزام کے بعد سیاسی حریف کے لیے کہیں کوئی امان نہیں تھی۔ آئین میں لکھا تھا کہ صدر چھ ماہ کے لیے ایمر جنسی نافذ کر سکتا ہے، بھٹو صاحب نے ترمیم فرما دی کہ صدرجب تک چاہے ایمر جنسی مسلط کیے رکھے۔ ماہ و سال کی کوئی قید نہیں۔
بھٹو صاحب کی چوتھی ترمیم بھی ہماری سیاسی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے عدالتوں سے اختیارات چھین لیے گئے اور ہائی کورٹ کو ضمانت دینے کے اختیارات سے محروم کر دیا گیا۔ قائد جمہوریت نے یہ ترمیم اس شان سے منظور کی کہ اپوزیشن کو بحث تک کی اجازت نہ دی اور اپوزیشن اراکین کو باقاعدہ ہ دھکے دے کر اسمبلی سے نکالا گیا۔ چنانچہ جب یہ ترمیم منظور ہوئی تو اسمبلی میں حزب اختلاف کا ایک رکن بھی موجود نہ تھا۔ بھٹو صاحب کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، اس کے باوجود انہیں گوارا نہ تھا کہ کوئی اختلافی آواز اٹھے۔
بھٹو صاحب کی پانچویں ترمیم بھی عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے تھی۔ وقت ملے تو حفیظ پیرزادہ کی تقریر پڑھیے جو انہوں نے اسمبلی میں عدلیہ کے خلاف کی۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا قائد عوام کتنے جمہوری تھے۔ چھٹی ترمیم میں تو بھٹو صاحب نے کمال کر دیا۔ یہ ترمیم اسمبلی کے آخری سیشن میں انتہائی عجلت سے پیش کی گئی۔ آگے الیکشن تھے اور یہ اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل آخری نشست تھی۔ اس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فارمولا پیش کر دیا گیا۔
ساتویں ترمیم کا قصہ بھی سن لیجیے۔ جب اپوزیشن کے ساتھ ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تو ایسی پیچیدگی میں آئینی طریقہ کار یہ تھا کہ وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لے لیں۔ بھٹو صاحب نے پارلیمانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے ترمیم کروا دی کہ ایسی کسی سورت میں وزیر اعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ نہیں لے گا بلکہ ریفرنڈم کروائے گا۔ پارلیمان کی اس واضح توہین کے بعد بھی بھٹو صاحب قائد جمہوریت ہیں۔ کیونکہ عوام کو ان کے طرز حکومت کا کچھ علم نہیں۔ ان کی مظلومانہ موت نے ان کے نامہ اعمال کی ساری تیرگی چھپا لی ہے ورنہ سچ تو یہ ہے ہماری جمہوری تاریخ میں ان سے بڑا آمر کوئی نہیں تھا۔
اب اگر بھٹو صاحب آئین میں سات عدد ترامیم فرما سکتے ہیں تو عمران خان آئین میں ترمیم کیوں نہیں کر سکتے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ عمران خان آئین میں ترمیم کریں گے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ کیا وہ کسی چور راستے سے ایک فرمان جاری کر دیں گے اور آئین میں ترمیم ہو جائے گی؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔ آئین میں ترمیم کا ایک طریقہ آئین ہی کے اندر موجود ہے اور اس کے تحت دوتہائی اکثریت سے آئین میں تبدیلی کی سکتی ہے۔ گویا عمران اگر کوئی تبدیلی لائیں گے تو دو تہائی اکثریت سے لائیں گے۔ دو تہائی اکثریت سے ایک فیصلہ ہو تا ہے تو اس پر اتنا شور کیوں؟
تیسرا سوال سب سے اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کے پاس تو دو تہائی اکثریت موجود ہی نہیں۔ ان کی حکومت کا عالم تو یہ ہے کہ چار ووٹ ادھر ادھر ہو جائیں اور حکومت گر جائے۔ آئین میں کوئی بھی ترمیم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی تائید کے بغیر اس وقت ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر اتنا شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آخری مرحلے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ خود اس ترمیم کے حق میں ووٹ دے دیں گے البتہ اس مرحلہ شوق سے پہلے شور مچایا جا رہا ہے کہ معاملہ بالرضا کا نہیں بالجبر کا ہے تا کہ جمہوریت دوستی میں سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا اٹھارویں ترمیم میں واقعی کچھ ایسا ہے جسے تبدیل کرنا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اس ترمیم میں جہاں بہت سی اچھی چیزیں تھیں وہاں ایسی خرابیاں بھی ہیں جنہوں نے ملک کو ایک بحرانی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر تعلیم کو صوبائی معاملہ قرار دینا کسی طور پر بھی مناسب کام نہیں۔ ہمیں ایک جامع تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے۔
کنکرنٹ لسٹ کے مکمل خاتمے سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ریاست پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے معاملہ کرنے میں بھی پریشانی ہو رہی ہے کیونکہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے وہاں بہت سارے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وفاق کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ این ایف سی ایوارڈ کی جزئیات بھی توجہ طلب ہیں۔ یہ سوال البتہ اہم ہے کہ ترمیم اگر ہوتی ہے تو اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ وہ سامنے آئیں گے تبھی ان پر بات ہو سکے گی۔