اپنا اپنا آئین، اپنی اپنی " شکنی"
حالیہ بحران میں سے ایک خیر یہ برآمد ہوئی ہے کہ معاشرے میں آئین پوری معنویت سے زیر بحث ہے اور سیاسی پیش رفت کو آئین کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کے متعدد آرٹیکلز پر بحث جاری ہے۔ جس ملک کی نصف سے زیادہ تاریخ غیر آئینی اقدامات سے بھری پڑی ہو اور جس ملک میں نیم خواندہ سے معاشرے کو آئین انگریزی میں لکھ کر دیا گیا ہو، پھر اس ملک میں لوگوں کو آئین سے دور رکھنے کے لیے اس کا کوئی باب نصاب کی کسی کتاب میں شامل نہ کیا گیا ہو، جس ملک کے شہریوں کو یہ بھی علم نہ ہونے دیا گیا ہو کہ آئین نے انہیں کون کون سے بنیادی انسانی حقوق دے رکھے ہیں، اس ملک میں اگر سیاسی بیانیے کا مرکز ومحور آئین بنتا جا رہا ہے اور میڈیا سے سوشل میڈیا تک آئین کی شرح ہو رہی ہے تو سیاسی حالات کی ساری خرابی کے باوجود یہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ ہمارے ہاں آئین کا احترام محض ایک کتابی بات ہے۔ نہ یہاں کسی کو معلوم ہے آئین کیا کہتا ہے نہ اس کے بارے میں کوئی حساس ہے۔ یہ ایک ایسا اجنبی ڈاکومنٹ ہے جو ہماری اجتماعی زندگی سے دور رکھاگیا ہے اور عملی طور پر اس کی افادیت اقوال زریں سے زیادہ نہیں رہنے دی گئی۔ حتی کہ اہل سیاست بھی، جو خود آئین ساز ہیں، آئین کے احترام سے بے نیاز ہیں۔ یہ جب آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد صرف وہ چند آرٹیکلز ہوتے ہیں جو ان کے حق اقتدار سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک آئین سے انحراف بھی صرف اس وقت ہوتا ہے جب ان کے حق اقتدار سے متعلق کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی ہو جائے۔
تضادات کا عالم یہ ہے کہ آئین ایک مقدس دستاویز ہے۔ اس دستاویز میں پالیسی کے اصول، وضع کیے گئے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ وہیں ساتھ یہ بھی لکھ دیا گیا کہ اگر حکومت کی کوئی پالیسی یا کوئی کام ان اصولوں کے خلاف ہوتا ہے تو اس پر صرف اس وجہ سے سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔
مزید لطف آپ کو اس وقت آتا ہے جب آپ اراکین پارلیمان کی اہلیت کا قانون پڑھتے ہیں۔ موتیوں کی صورت اقوال زریں کی ایک مالا ہے جو پرو دی گئی ہے۔ رکن پارلیمان وہ بن سکتا ہے جو امانت دار ہو، دیانت دار ہو، Sagacious ہو، وغیرہ وغیرہ اور ڈھیرسا رے وغیرہ لیکن مجال ہے کہ کسی ایک اصطلاح کا بھی معنی لکھا گیا ہو کہ اس کسوٹی پر کسی کو پرکھنے کا معیار کیا ہو گا۔ مزید یہ کہ جو خواتین و حضرات راکین پارلیمان رہے ہیں، دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا وہ آرٹیکل 62میں دی گئی اہلیت کی شرائط پر پورا اترتے ہیں؟
پھر جو چیزیں واضح ہیں، ان پر بھی کوئی عمل نہیں کرتا۔ آئین میں لوگوں کی زندگی کی حفاظت کو بنیادی انسانی حق قرار دیا گیا ہے لیکن یہاں انسانی زندگی ساہیوال کی سڑک پر بھون دی جائے یا ناظم جوکھیو کی شکل میں لمحہ لمحہ چھینی جائے، سب بے نیاز دور کھڑے دہی کے ساتھ کلچہ کھاتے رہتے ہیں۔ جوکھیو کی بیوہ دہائی دیتی رہتی ہے کہ سب اس کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ مفرور ملزم عدم اعتماد کا ووٹ دینے آتا ہے تو اسے سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 251کہتا ہے کہ قومی زبان اردو ہو گی اور 15سال کے اندر اندر اسے دفتری زبان بنانے اور دیگر امور اسی زبان میں طے کرنے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔ پچاس سال ہو گئے کیا کسی حکومت نے اس آرٹیکل پر عمل کرنے کی کوئی کوشش کی؟ آئین کا آرٹیکل 31 کہتا ہے کہ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی روشنی میں لوگ اس قابل ہو سکیں کہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ کیا کسی حکومت نے اس آرٹیکل پر عمل کیا؟
آئین کا آرٹیکل 2 کہتا ہے کہ ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہو گا۔ سوال یہ ہے اس آرٹیکل پر آج تک مکمل طور پر عمل کیوں نہیں ہو سکا؟ آئین کے آرٹیکل381 کی ذیلی دفعہf میں کہا گیا ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سود کا خاتمہ کیا جائے گا۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ اس جلد از جلد کے لیے حکومتوں کو کتنے ہزار سال کی مدت درکار ہے؟ آئین کا آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ ریاست سے وفاداری اور آئین کا احترام بنیادی فریضہ ہے۔ کیا واقعی ہم نے آئین کے احترام کو ریاست سے وفاداری کی طرح بنیادی فریضہ سمجھا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 6 آئین شکنی کو سنگین غداری قرار دیتا ہے، کیا اس آرٹیکل پر خود اہل سیاست اعتراض نہیں اٹھاتے کہ اس کام کو غداری نہ کہا جائے؟ آئین کے آرٹیکل 256میں کسی بھی طرح کی پرائیویٹ آرمی رکھنے کی ممانعت ہے۔ اس آرٹیکل پر آپ کے خیال میں ہم نے عمل کیا ہے؟ یہ جو گلی محلے میں ابھی کل تک نجی مسلح گروہ گھوما پھرا کرتے تھے کیا یہ آئین کی سر بلندی ہو رہی تھی؟
آئین کے آرٹیکل 260 کی ذیلی دفعہ 3 اے میں مسلمان کی تعریف اور تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ جو اللہ کی توحید اور رسالت مآب ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھے گا وہ مسلمان ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ کفر کے جو فتوے دیے جاتے ہیں اور لوگوں کو منکر اور کافر قرار دیا جاتا ہے کیا وہ آئین کے مطابق ہے؟
آئین کے آرٹیکل 19میں جہاں آزادی رائے کی بات کی گئی ہے وہیں اس پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، جن میں یہ پابندی بھی ہے کہ آزادی رائے شائستگی، وقار اور اخلاقیات سے بے نیاز نہیں ہونی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ حکومتیں، حزب اختلاف، سوشل میڈیا اور میڈیا کس حد تک اس آرٹیکل پر عمل کر رہے ہیں۔ ٹاک شوز، پارلیمان، تجزیہ کاری، ہر عنوان کے تحت جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق ہے؟
صدر سپریم کورٹ برادرم احسن بھون آج کل آئین کی بالادستی کے لیے متحرک ہیں۔ یہ بہت شاندار کام ہے لیکن دل میں ایک حسرت سی پیدا ہوتی ہے کہ جب آئین مشرف کے ہاتھوں پامال ہوا تھا اور احسن بھون صاحب پی سی او کا حلف اٹھا کر جج بن گئے تھے، کاش آئین سے یہ محبت اس وقت انہیں اس اقدام سے روک لیتی۔
یوں معلوم ہوتا کہ ہمارا اپنا اپنا آئین ہے اور اپنی اپنی آئین شکنی۔ جب مفاد پورا ہو رہا ہو تو سب جائز ہے، جب مفاد پر ضرب لگے تو اقوال زریں یاد آ جاتے ہیں۔ مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے مگر یہ لازم ہے کہ فیصلہ کن چیز آئین کو قرار دیا جائے ذاتی اور گروہی مفاد کو نہیں۔ اگر ہم یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ بابا یہ سب کہانیاں ہیں۔