Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Amrullah Saleh Ke, Haji Bigo

Amrullah Saleh Ke, Haji Bigo

امر اللہ صالح کے ’ حاجی بگو‘

امر اللہ صالح نے الزامات عائد کیے اور یہاں ان کے حاجی بگو، ریاست پاکستان سے وضاحتیں مانگنے لگ گئے۔ نفسیاتی عارضوں میں سے یہ بد ترین عارضہ ہے کہ ہر مسئلے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جائے۔ چنانچہ افغانستان میں حکومت کے ہاتھوں سے معاملات نکلتے دکھائی دے رہے ہیں تو مشق ستم ایک بار پھر پاکستان ہے۔

امر اللہ صالح کے الزامات کے دو حصے ہیں۔ اول: کوئٹہ میں طالبان کی فتح کا جشن کیوں منایا گیا۔ دوم: پاکستان نے افغان فضائیہ کو سپن بولدک میں وارننگ کیوں دی، جب افغان فضائیہ طالبان کے خلاف حملے کرنے جا رہی تھی۔ ان الزامات کے بعد نتائج حاجی صاحبان کے نتائج فکر یہ ہیں کہ طالبان کے پاکستان میں مراکز ہیں اور پاکستان ان کی سرپرستی کر رہا ہے۔

طالبان کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں ایک عمومی ہمدردی موجود ہے اور امریکہ سے ایک عمومی بے زاری بھی موجود ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب پاکستان طالبان کا گڑھ ہو گیا۔ طالبان کو عملی عسکری حمایت کے راستے پاکستان حکومت روک سکتی ہے لیکن پاکستانی حکومت اپنے عوام کو یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ جنگ کے اختتام پر سامنے رکھے نتائج پر کوئی خوشی کا اظہار نہ کرے؟ کسی نے خوشی منائی ہے تو یہ آزادی رائے کے مسلمہ قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ خوشی جب تک لا قانونیت کے دائرہ کار میں نہیں آتی، اس پر حکومت کیسے گرفت کر سکتی ہے؟

سپن بولدک میں فضائی وارننگ کی بات امر اللہ صالح کے ٹویٹ کی بجائے اگر افغان انتظامیہ با ضابطہ طور پر کرتی توز یادہ بہتر ہوتا۔ بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ بارڈر ایریا میں افغان انتظامیہ کو متنبہ کیا گیا کہ ہماری حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ایک جائزور منطقی بات ہے۔ بین الاقوامی بارڈر کے پاس فضائی کارروائی ہمیشہ سے ہی ایک نازک مسئلہ رہا ہے اور اس میں اگر کوئی وارننگ دی بھی گئی ہے کہ ہماری حدود کی خلاف ورزی نہ ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔

امر اللہ صالح اور اس کے جملہ حاجی بگو" صاحبان رہنمائی فرمائیں کہ چلیں سپین بولدک میں تو وہ اس لیے کارروائی نہ کر سکے کہ پاکستان نے وارننگ دے دی لیکن پورے افغانستان کا جو نوے فیصد کے قریب " سٹوڈنٹس" کے قبضے میں جا چکا ہے کیا وہاں بھی پاکستان نے وارننگ جاری کی تھی کہ امر اللہ صالح بھائی جان ازرہ کرم ان سٹوڈنٹس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر کے ثواب دارین حاصل کریں؟ سپن بولدک کے علاوہ پورے افغانستان میں امر اللہ صالح کی فورسز مزاحمت کی بجائے سرنڈر کیوں کر رہی ہیں؟ اربوں ڈالر لگا کر امریکہ نے یہ فوج تیار کی تھی پھر کیا ہوا کہ یہ فوج کسی ریوڑ کی بھیڑوں کی طرح سٹوڈنٹس، کے آگے ڈھیر ہو رہی ہے؟ کیا یہ بھی پاکستان کا قصور ہے؟

پاک افغان سرحد کے ساتھ بھارت نے دو درجن سے زیادہ قونصل خانے کھولے۔ یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کو اقوام متحدہ کو خط لکھنا پڑا کہ بھارت کا یہ اقدام خطے میں امن کا مسئلہ کھڑا کر سکتا ہے۔ اب اچانک بھارت کو افغانستان سے نکلنا پڑا ہے تو اس کی پراکسی وار کے طور پر کچھ عناصر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا چاہ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ طالبان کے اب چین اور روس جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات استوار ہو چکے ہیں اور وہ پاکستان کے محتاج نہیں رہے۔ حتی کہ ایران کے ساتھ بھی ان کا اشتراک عمل موجود ہے۔ خود امریکہ نے معاہدہ دوحہ کس کے ساتھ کیا؟ انہی طالبان کے ساتھ۔ اگر ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی تو دنیا کی واحد سپر پاور نے ایک نان سٹیٹ ایکٹر کے ساتھ بیٹھ کر معاہدہ کیوں کیا اور اسے ایک بین الاقوامی حیثیت کیوں دی؟ اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جن پر نہ حاجی بگویم غور فرمائیں گے نہ حاجی بگو صاحب کو فرصت ہے۔ نومولود دانشوران کرام کی تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ افغانستان میں بد امنی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ افغانستان تھا، جس نے پاکستان کو پہلے دن سے قبول نہ کیا، اقوام متحدہ میں اس کے خلاف ووٹ دیا اور پھر پشتونستان تحریک کے ذریعے شورش بپا کروائی۔ ڈیورنڈ لائن جو بین الاقوامی قانون کے تحت طے شدہ سرحد ہے اسے ماننے سے انکار کیا اور پاکستان کے علاقوں پر دعوی کیا۔ امر اللہ صالح کے حاجی بگو، اب چلے ہیں ریاست پاکستان سے جواب مانگنے کیونکہ ان کی تاریخ بھی ان کی فکر کی طرح یک رخی اور ادھوری ہے۔

افغانستان کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کیا ظاہر شاہ کے وزیر اعظم دائود خان نے اپنے کزن بادشاہ کو معزول کیا تھا تو اس کے پیچھے بھی پاکستان تھا؟ یہی دائود خان جو افغانستان کے پہلے صدر تھے جب کمیونسٹ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھوں معزول اور قتل ہوئے اور ان کی لاش 30 سال بعد جا کر ملی تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان تھا؟ داودکے بعد حکومت سنبھالنے والے کمیونسٹ رہنما نور محمد ترکئی کو ایک ہی سال بعد جب منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کر دیا گیا تو کیا اس کے پیچھے بھی پاکستان تھا؟ ترکئی کو قتل کروانے والے حفیظ اللہ امین جب صرف 104 دنوں کی حکومت کے مزے لوٹ کر قتل ہوئے تو کیا یہ بھی پاکستان نے کرایا تھا؟ یہ سب تو طالبان نہ تھے۔ یہ تو سب کے سب کمیونسٹ جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے اور اقتدار پر قابض ہوتے رہے؟

افغانستان کا مسئلہ بنیادی طور پر داخلی ہے۔ ظاہر شاہ سے لے کر اب تک یہاں مرکزیت قائم ہی نہیں ہو سکی۔ یہاں قبائل ہیں، مسلح ہیں۔ لسانی اور علاقائی عصبیتیں ہیں۔ یہ وار لارڈ ز کا معاشرہ ہے جو ایک دوسرے کا وجود تسلیم نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اس کی مرکزیت میں رہ سکتے ہیں جو طاقتور ہو۔ کل وہ طاقت امریکہ کے پاس تھی اس سے پہلے سوویت نواز کمیونسٹوں کے پاس رہی اور اب سٹوڈنٹس کے پاس جا رہی ہے۔ اس میں پاکستان کا کیا قصور؟ حاجی بگو کو چاہیے اپنے حاجی بگویم سے کہیں وہ داخل پر توجہ دے۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi