ایک دن مارگلہ کے تیندووں کے ساتھ
پچھلے سال مارگلہ کی بہار کے یہی دن تھے۔ وائلڈ لائف والوں نے بتایا تھا کہ وادی میں تیندوے آ گئے ہیں اور پچھلی شام سے تھوڑا پہلے جب سورج غروب ہو چکا تھا اور رات ابھی اتری نہیں تھی، ایک تیندوا مٹر گشت کرتے درہ کوانی کے داخلی دروازے تک آ گیا تھا۔ چنانچہ خطرے کے پیش نظر لوگوں کا درے میں داخلہ بند کر دیا گیا ہے۔
یہ تو معلوم تھا کہ مارگلہ میں تیندوے ہوتے ہیں اور رملی ندی کے اُس پار شادرا کی طرف جاڑے میں لوگوں کے مال مویشی کھا جاتے ہیں۔ سالوں پہلے کی بات ہے، درہ کوانی اور درہ ڈھوک جیون کے سنگم پر، اوپر پہاڑ پر، وادی اور ندی کے اُس پار، جنگل میں اکیلے رہنے والی مس مصرو نے بھی درخت پر اپنی مچان کے ساتھ ایک بندوق لٹکا رکھی ہوتی تھی کہ تیندوے اس کے جانور نہ کھائیں۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ پہاڑ سے اتر کر نیچے درے کے داخلی دروازے تک آ جائیں۔ اس روز میں وہیں برڈنگ ٹاور پر بیٹھا وادی کی وسعتوں کو تکتا رہا، یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ یہ ایک عجیب سا رومانوی احساس تھا کہ آج اس دور میں بھی شہر سے چند قدم پر اس جنگل میں تیندوے پائے جاتے ہیں، جن کے ڈرسے درے کو بند کر دیا گیا ہے۔
آج ایک سال بعد، میں اس درہ کوانی میں جا رہا تھا، جسے لوگوں کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے اور اب یہ لیپرڈ پریزرو زون، قرار دیا جا چکا ہے۔ میرے ساتھ وائلڈ لائف کے اسد حیات اور ظہیر احمد تھے۔ اسد صاحب کے ہاتھ میں تیندووں کی چند تصاویر تھیں جو جنگل میں لگائے کیمرا ٹریپس سے لی گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں جہاں سے تیندووں کی آمدورفت ہمارے کیمروں نے نوٹ کی ہے ہم ان ان جگہوں پر جا رہے ہیں۔ اور ہم آپ لوگوں کو وہاں و ہاں لے جا کر کھڑا کر دیں گے جہاں جہاں ان تصاویر میں آپ کو تیندوے نظر آ رہے ہیں۔
لیجیے جناب ہم درہ کوانی کے مرکزی گیٹ کی طرف بڑھنے لگے جہاں آہنی تالہ لگا ہو تھا۔ لیکن گیٹ سے پہلے ہی اسد حیات صاحب نے ایک درخت تلے روک لیا کہ جناب یہ تیندوے کی تصویر اس درخت تلے اس راستے پر لی گئی ہے اور آپ وہیں اسی پگڈنڈی پر کھڑے ہیں۔ تھوڑے اشتیاق اور تھوڑے خوف سے میں نے سوال کیا کہ اس کا مطلب ہے تیندوا گیٹ کے اِس پار بھی تشریف لا چکا ہے۔ انہوں نے مسکرا کر کہا جی ہاں کبھی کبھار آ جاتا ہے۔ ان تیندووں کے نام رکھنے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے۔ ایک کا نام شہزادی ہے، ایک کا شہزادہ اور تیسرے کا نام سلطان رکھ گیا ہے۔
تالہ اتارا گیا، گیٹ کھولا گیا اور ہم تیندووں کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ یہ وادیاں اور یہ پگڈنڈیاں ایک زمانے میں ہمارا علاقہ ہوتی تھیں۔ اب یہ ہمارے لیے علاقہ ممنوعہ ہیں۔ چند ہی قدم چلے کہ اسد صاحب نے بتایا یہ دیکھیے اس مقام پر تیندوے کی تصویر ہے اور جہاں تیندوا کھڑا ہے آپ بھی عین اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ ساتھ ہی دائیں جانب جاتی پگڈنڈی پر واقع چھوٹے سے آبی ذخیرے کے پاس اسد پھر رک گئے کہ یہ دیکھیے تیندوے یہاں سے پانی پینے آتے ہیں۔ یہ ان کی تصاویر ہیں، یہ ان کے قدموں کے نشانات ہیں اور جہاں وہ کھڑے تھے، وہیں آپ کھڑے ہیں۔
چند قدموں کے فاصلے پر ایک درخت تھا۔ مارگلہ کے ایک تیندوے کی تصویر بڑی مشہور ہوئی ہے جس میں وہ کیمرا ٹریپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس تیندوے کا نام شہزادی ہے اور شہزادی کی یہ تصویر اسی درخت پر لگائے گئے کیمرے سے لی گئی ہے۔ تیندوے اس راستے سے اکثر ہی گزرتے ہوں گے لیکن اس روز کیمرا ٹریپ لگا تھا تو شہزادی نے نوٹس کیا کہ جنگل میں یہ آج نئی چیز کیا ہے چنانچہ اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ اسے غور سے دیکھتی رہی۔ کچھ تصاویر ایسی بھی ہیں جن میں تیندوے کیمرے کے ساتھ منہ رگڑ رہے ہیں اور پنجے لگا رہے ہیں۔ تیندووں کی اس قوت مشاہدہ نے حیران کر دیا۔
ایک جگہ کچھ بال پڑے تھے۔ وائلڈ لائف والوں نے ویڈیو دکھائی کہ یہ اس جگہ پر بیٹھ کر تیندوے نے ایک بندر کا شکار کیا۔ یہ بال اسی بندر کے تھے جو تیندوے کے حملے کے دوران جھڑ گئے ورنہ تیندوا اسے کھال سمیت کھا گیا تھا۔
ندی کے پہلے موڑ کے پاس پہنچے تو یہاں ایک بڑے سے درخت کے سامنے تیندوے کی تصویر دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ آپ اسی مقام سے گزر رہے ہیں جہاں سے چند دن پہلے تیندوا گزرا تھا۔ اسد حیات صاحب نے کیمرا کی ریکارڈنگ سے ایک دلچسپ بات شیئر کی کہ جب ہم یہاں کیمرا ٹریپ لگا کر گئے اور بعد میں اس کی ریکارڈنگ دیکھی تومعلوم ہوا کہ ہمارے جانے کے صرف 45 سیکنڈ بعد یہاں سے تیندوا گزرا۔
کیمرے کی ویڈیو میں ہمارے گزرنے اور اس کے گزرنے میں صرف 45 سیکنڈ کا فرق ہے۔ یعنی جب ہم لوگ کیمرا ٹریپ لگا رہے تھے، اس تیندوا سامنے ندی کے کنارے کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا کیونکہ اس نے ندی عبور کر کے دوسری جانب جانا تھا۔ جیسے ہی وائلڈ لائف کا عملہ کیمرا ٹریپ نصب کر کے وہاں سے ہٹا، تیندوے نے اسی جگہ سے ندی عبور کی اور جنگل میں دوسری جانب چلا گیا۔
ظہیر احمد کہنے لگے کہ عین ممکن ہے اس وقت بھی کہیں آس پاس، کسی جھاڑی کے پیچھے سے کوئی تیندوا ہمیں دیکھ رہا ہو۔ جنگل کے بیچ اس ماحول میں یہ بات سنی تو وجود میں سنسنی دوڑ گئی۔ میں نے سوچا اگر یہاں تیندوا سامنے آ جائے تو کیا ہو گا۔ میرے پاس واکنگ سٹک کے علاوہ کچھ نہیں اور وائلڈ لائف کے دوستوں کے پاس بھی کوئی ٹرینکو لائزرگن وغیرہ نہیں ہے۔ اس سوال کو میں نے اسد حیات اور ظہیر احمد سے شیئر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے عملے کے پاس ابھی تک ٹرینکو لائزر گن ہے ہی نہیں۔ چنانچہ ہم بھی جب جنگل میں آتے ہیں تو یہ خطرہ ہمارے ساتھ آتا ہے۔
ہم وادی میں کافی آگے تک چلتے گئے، قریب دو کلومیٹر اندر جا کر انجیر والی ندی کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ اس علاقے میں ابھی کیمرے نصب نہیں ہو سکے۔ چشموں سے بہتا صاف پانی، پتوں سے سرسراتی تیز ہوا، ایک موسیقی تھی کہ روح میں اتر رہی تھی۔ تصور کیجیے کہ جس وادی میں ایک سال سے لوگوں کی آمدورفت پر پابندی ہو اس وادی کے قدرتی حسن کا عالم کیا ہو گا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے زمین کا یہ حصہ ابھی تخلیق کیا گیا ہے اور ہم وہ پہلے پہلے لوگ ہیں جو یہاں آئے ہیں۔ خواب کا سا سماں تھا۔ کسی پرستاں جیسا۔ پھر بیٹھے بیٹھے اچانک یاد آیا کہ یہاں تو تیندوے بھی ہیں اور ہمارے پاس تو ٹرینکو لائزر گن تک نہیں ہے اور موبائل کے سگنل بھی کام نہیں کر رہے۔ چنانچہ ہم نے فورا واپسی کی راہ لی۔
یہ صدیوں کا سفر تھا جو گھنٹوں میں تمام ہوا۔