Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Agar Aaqa Tumhare Ghar Aa Jayen, To Kya Karo Ge?

Agar Aaqa Tumhare Ghar Aa Jayen, To Kya Karo Ge?

اگر آقا ﷺ تمہارے گھر آ جائیں، توکیا کرو گے؟

انگریزی میں لکھی یہ نظم ایک دوست نے واٹس ایپ کی ہے۔ شاعر سوال کرتا ہے کہ اگر ایک روز ایسا ہو آقا ﷺ تمہارے گھر آ جائیں اور بالکل اچانک آ جائیں تو تم کیا کرو گے؟ یہ سوال آدمی کو وہاں لے جاتا ہے جہاں اسے اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔ وفور شوق سے آنکھیں برسات ہو جاتی ہیں اور حد ادب میں وجود برفاب ہو جاتا ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ اسے یہ تو معلوم ہے کہ تم راہوں میں پلکیں بچھا دو گے، تمہارے وجود کی ایک ایک پور سرشاری کی کیفیت میں ہو گی، تم گھر کا بہترین کمرہ آقا ﷺ کی خدمت میں پیش کر دو گے، تم ان کے حضور بہترین سے بہترین کھانا دستر خوان پر چن دو گے اور ان کی خدمت کی لذت تمہیں دنیا سے بے خبر کر دے گی۔ اس لیے اس کاسوال کچھ اور ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب تم آقا ﷺ کو دیکھو گے تو تم کیا کرو گے۔ کیا تم میں اتنی ہمت ہو گی کہ بازو پھیلا کر آگے بڑھو اور ان کا استقبال کرو یا تمہیں پہلے اپنے کپڑوں کی فکر لاحق ہو جائے گی کہ ان کپڑوں میں آقا ﷺ سے کیسے ملوں؟ پھرکیا تم کپڑے بدل کر فورا آقا ﷺ کا استقبال کرنے کو بھاگو گے یا پہلے تمہیں گھر میں بکھرے میگزین اور رسالوں کو چھپا کر ان کی جگہ قرآن رکھنا پڑے گا؟ تمہارا ٹی وی، ڈرامے اور فلمیں اور ریڈیو، ان کا کیا کرو گے؟ کیا تم آلات موسیقی یونہی پڑے رہنے دو گے یا انہیں چھپا کر ان پر احادیث کی کتب رکھ دو گے؟ کیا تم اپنے آقا ﷺ کو لے کر گھر کے ہر کمرے میں جا سکو گے یا انہیں گھر دکھانے سے پہلے ہر کمرے میں تمہیں بھاگ بھاگ کر کچھ چیزیں چھپانا پڑیں گی؟

اور فرض کرو آقا ﷺتمہارے گھر کچھ دن قیام کا ارادہ فرما لیں تب کیا ہو گا؟ کیا تمہارے معمولات زندگی وہی رہیں گے جو پہلے ہوتے تھے؟ کیا تم وہ کام کر و گے جو پہلے کیا کرتے تھے۔ کیا تم اسی طرح باتیں کرو گے جیسے پہلے کیا کرتے تھے؟ کیا تم وہ کتابیں پڑھ سکو گے جو پہلے پڑھا کرتے تھے؟ کیا تم آقا ﷺ کو بتا سکو گے کہ میرے معمولات زندگی یہ ہیں؟ جہاں جہاں تم جاتے ہو کیا تم میں ہمت ہو گی کہ آقا ﷺ کو بھی ساتھ لے جا سکو یا تم اپنے معمولات معطل کر دو گے کہ آقا ﷺ کو ان کے بارے میں کچھ خبر نہ ہو؟ کیا تم اپنے قریبی دوستوں کو آقاﷺ سے ملوانے کی ہمت کر سکو گے یا تمہاری خواہش ہو گی کہ جب تک آقا ﷺ یہاں جلوہ افروز ہیں تمہارے دوست ادھر کا رخ نہ کریں؟ آخری سوال، سوال نہیں ہے ایک تیر ہے جو دل میں پیوست ہو جاتا ہے۔ شاعر پوچھتا ہے کہ سچ سچ بتائو اگر آقاﷺ فرمائیں اب میں تمہارے پاس ہی رکوں گا تو کیا تمہیں یہ سن کر واقعی خوشی ہو گی؟ شاعر نے تو چند سوالات پوچھ کر نظم تمام کر دی لیکن من میں سوالات کا ایک دفتر کھلا ہوا ہے۔

فرض کریں آقا ﷺ کسی روز اس حاکم کے گھر تشریف لے جائیں جس کا دعوی ہے کہ اس نے ریاست مدینہ کے رہنما اصولوں کے تحت حکومت قائم کی ہے۔ فرض کریں آقاﷺ کسی دن، وزیر اعظم ہائوس پہنچ جائیں، وزیر اعظم کو آقا ﷺ کی تشریف آوری کی خبر ملے اور وہ ننگے پائوں بھاگتے ہوئے ہاتھ باندھ کر قدم بوسی کو حاضر ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد وزیر اعظم کیا کرے گا؟ کیا وہ آقا ﷺ کو اس وزیر اعظم ہائوس میں لے جائے گا جس کا رقبہ چودہ سو سال پہلے کے مدینہ کے سارے شہر سے بڑا ہے؟ اگر آقا ﷺ نے پوچھ لیا کہ ریاست کا وزیر اعظم تو لوگوں کا خادم ہونا چاہیے، یہ قیصر وکسری جیسے محلات کیوں تعمیر کر لیے گئے تو وزیر اعظم کے پاس کیا جواب ہو گا؟

وزیر اعظم ہائوس کے محل کے قالین، قیمتی فانوس، مہنگا فرنیچر، نمودو نمائش، قیمتی کراکری، عالی شان گاڑیاں، کیا وزیر اعظم میں ہمت ہو گی کہ آقا ﷺ کو یہ سب دکھا سکے؟ کیا وہ ان چیزوں کو چھپا نے کی کوشش کرے گا؟ چھپائے گا تو کہاں لے جائے گا؟ کسی نے آقا ﷺ کے حضور شکایت کر دی کہ آپ کے غلام سیدنا عمر فاروقؓ سے تو ایک کرتے کا حساب بھی لیا جاتا تھا اور وہ حساب دیا کرتے تھے لیکن یہ شخص غیر ملکی تحائف کا حساب دینے سے انکار کر رہا ہے تو وزیر اعظم پر کیا بیتے گی؟

ساتھ ایوان صدر ہے۔ ایک شخص یہاں مقیم ہے لیکن اس کا رقبہ آدھے سیکٹر جتنا ہے۔ کیا صدر پاکستان میں اتنی جرات ہو گی کہ حاضر ہو کر التجا کرے آقاﷺ یہ ساتھ ہی آپ کے ایک اور غلام کا غریب خانہ ہے، اگر آپ چند لمحوں کے لیے تشریف لائیں تو غلام کی زندگی اور آخرت دونوں سنور جائیں گی؟ آقا ﷺ نے اگر صدر پاکستانسے پوچھ لیا کہ مسلمان ریاست کے سربراہ کو اتنے بڑے محل کی کیا ضرورت ہے تو صدر پاکستان کے پاس کیا جواب ہو گا؟

یہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ جس کے باہر لکھا ہے فاحکم بین الناس بالحق،۔ فرض کریں آقاﷺ اس عمارت میں تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں سائلین کو پتا چلتا ہے دو جہانوں کے سردار تشریف لائے ہیں۔ فرض کریں وہ ساری باتیں، سارے ظلم، سارے مشاہدات، ساری بے بسی، سب کچھ آقاﷺ کے حضور کہہ ڈالتے ہیں۔ تصور کریں کہ پھر کیا ہو گا؟ آقا ﷺ نے اگر ساری پارلیمان اور ساری عدلیہ کو اپنے حضور طلب فرما لیا اور پوچھا کہ جب فیصلہ ہو چکا کہ سود اللہ اور میرے ساتھ کھلی جنگ ہے تو تم اب تک اسے ختم کیوں نہیں کر سکے، تب کیا ہو گا؟ آقا ﷺ نے ز یر التوا مقدمات کا حساب مانگ لیا تو کیا ہو گا؟ آقا ﷺ نے فیصلوں کو انصاف کے معیار پر پرکھنے کا حکم دے دیا تب کیا ہو گا؟

اگر آقاﷺ نے اہل مذہب کو طلب فرما لیا تو کیا بنے گا؟ اہل صحافت سے کچھ پوچھ لیا تو کون جواب دے گا۔ تاجروں سے سوال ہو گیا تو کیا انجام ہو گا۔ مجھ سے اور آپ سے جواب طلبی ہو گئی تو انجام کیا ہو گا؟ سوالات ہی سوالات ہیں لیکن جواب میں بے بسی، شدید بے بسی کے سوا کچھ نہیں۔ کیا عالم، کیا جج، کیا جرنیل، کیا عامی، اس مملکت خداداد میں کوئی فرد، کوئی ادارہ ہے جو آقاﷺ کے حضور پیش ہونے کی جرات کر سکے؟

عید میلا د النبی ﷺ سب کو مبارک ہو۔ ہر ایک کی خوشی کا اپنا انداز ہے۔ یہ سوال مگر وجود میں ترازو ہو گیا ہے کہ اگر ایک روز ایسا ہو کہ آقا ﷺ ہمارے گھر آ جائیں اور بالکل اچانک آ جائیں تو ہم کیا کریں گے؟ یہ سوال آدمی کو وہاں لے جاتا ہے جہاں اسے اپنی خبر بھی نہیں رہتی۔ وفور شوق سے آنکھیں برسات ہو جاتی ہیں اور حد ادب میں وجود برفاب ہو جاتا ہے۔

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed