1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Afghanistan Ka Hero Kon Hoga?

Afghanistan Ka Hero Kon Hoga?

افغانستان کا ہیرو کون ہو گا؟

افغانستان میں وقت کا موسم بدل چکا ہے اور تجزیہ نگار فتوحات تازہ کی پیمائش کر رہے ہیں۔ میرے جیسے طالب علم کے نزدیک افغانستان میں کسی بھی فریق کی کوئی سی بھی فتح المیے کے سوا کچھ نہیں۔ افغانستان کا ہیرو اب وہ نہیں جو مخالفین کو روند کر رکھ دے۔ افغانستان کا ہیرو وہ ہو گا جو اس ملک کو آگ اور خون کے کھیل سے نجات دے، جو مخالفین کو گلے لگا سکے، جو بدلہ لینے کی قدرت رکھتے ہوئے معاف کرنے کو ترجیح دے، جو ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر افغان قوم کا سوچے، اس کی تعمیر کرے اور جو دکھوں کی ماری اس منتشر قوم کو وحدت میں پرو کر اس کا دامن خوشیوں سے مالا مال کر دے۔

ترویراتی مباحث کی اہمیت اپنی جگہ لیکن افغانستان محض ایک تزویراتی موضوع نہیں ہے، یہ انسانی المیہ بھی ہے۔ تزویراتی مباحث بھلے فاتحین کے گرد گھومتے ہوں، لیکن انسانی المیے کا محور صرف دکھ اور بے بسی ہے۔ ہیرو اب وہ ہو گا جس کی حکمت عملی بھلے تزویراتی ہو لیکن جس کا مقصد افغانستان کے انسانی المیے کا خاتمہ ہو۔

طالبان بہت تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور فتوحات حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن یہ فتوحات اگر انسانی المیے کو مخاطب نہ بنا سکیں اور زخموں سے چور معاشرے پر مرہم نہ رکھ سکیں تو یہ بے معنی ہوں گی۔ طالبان کے ساتھ، ظاہر ہے کہ، ان کی یاد داشت بھی ہے۔ اس میں دکھ بھی ہیں اور وہ مظالم بھی جو خود ان پر کیے گئے۔ دشت لیلی سے لے کر دوستم جیسے وار لارڈ کے ہاتھوں کنٹینروں میں مارے جانے والوں کا دکھ بھلا دینا یقینا آسان نہیں ہو گا۔ عالمی اتحاد کی بے پناہ قوت کے خلاف مزاحمت کر کے اب چند ہی دنوں میں افغانستان فتح کر لینے والے طالبان کی نفسیات اس وقت یقینا ایک فاتح کی نفسیات ہو گی۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے یہی وقت ان کے امتحان کا بھی ہے۔

اگر وہ اپنے دکھوں کا حساب کرنے بیٹھ گئے تو افغانستان کا انسانی المیہ مزید گہرا ہو جائے گا اور اگر وہ اپنی تکالیف اور مصائب سے بالاتر ہو کر سب کے لیے خیر بن گئے تو یہ اس معاشرے کی حقیقی خیر خواہی ہو گی۔

افغانستان کو اس وقت خیر خواہی کی ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسی قوت کی راہ دیکھ رہا ہے جس کے دامن میں اتنی وسعت ہو کہ سب کو ساتھ لے کر چل سکے۔ جس کی فکر میں اتنی تازگی ہو کہ نئے دور کے تقاضوں کو سمجھ سکے، جس کے ظرف میں اتنی کشادگی ہو کہ دشمنوں کو گلے لگا سکے، جس کی نظر میں اتنی صلاحیت ہو کہ حقیقی چیلنج کو سمجھ سکے۔ افغانستان کے غالب حصے کو فتح کر لینے والے طالبان اگر یہ قوت بن سکتے ہیں تو افغان سماج ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گا اور وہ یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا سکتے تو مجھے ڈر ہے ان کی یہ ساری فتو حات آخری تجزیے میں بے معنی ثابت ہوں گی۔

ہرات کے اسماعیل خان اس وقت طالبان کی حراست میں ہیں۔ وہ چاہیں تو انہیں ڈاکٹر نجیب کی طرح کسی چوراہے میں کھڑے ٹینک کے ساتھ لٹکا دیں اور چاہیں تو انہیں گلے لگا لیں اور کہیں کہ اسماعیل خان دیکھو ہم میں جتنے بھی اختلافات ہوں لیکن تم اور ہم سب اسی ملک کے شہری ہیں۔ تم ہمارے دشمن سہی لیکن تم اسی ملک کی ایک اکائی کے رہنما ہو۔ ہم اس اکائی کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے تمہیں معاف کر رہے ہیں۔ آو مل کر اس ملک کی تعمیر کرتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے لیکن مسیحائی کا تقاضا یہی ہے۔ افغانستان کی تعمیر اور حقیقی امن اگر کسی کا مقصود ہے تو اس کا راستہ یہی ہے۔ یہ بھلے انتہائی مشکل کوہ کنی ہی ہو لیکن کرنے کا کام یہی ہے۔

افغانستان کا حقیقی چیلنج کیا ہے؟ میرے نزدیک یہ چیلنج عسکری نہیں فکری ہے۔ افغانستان آج بھی گروہوں میں بٹا ہوا ملک ہے۔ یہاں لسانی، گروہی اور قبائلی دھڑے ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ کوئی قوت ہو جو ان سب کو ساتھ لے کر چلے، جو ان سب شناختوں کو پامال کر کے اپنا اقتدار قائم کرنے کی بجائے ان سب کو احترام دے اور ساتھ لے کر چل سکے، جو اس دھڑے بندی کو ایک قومی وحدت میں بدل دے، جو لوگوں کو ان کی اپنی اپنی شناخت کے ساتھ قومی دھارے کا حصہ بنا دے، جو اپنے اپنے گروہ کی بجائے قومی ادارے بنائے اور پھر ان اداروں کومضبوط کرے۔

دنیا بہت آگے بڑھ چکی۔ افغانستان کے قبائل اور گروہ جب تک اپنے تعصبات سے بالاتر ہو کر قومی ادارہ سازی کی طرف توجہ نہیں دیتے تب تک ان کا ملک پراکسی وار کا میدان بنا رہے گا۔ کوئی ملک کسی گروہ کی سرپرستی کرے گا تو کوئی ملک کسی کی۔ افغانستان مقتل بنا رہے گا۔ افغانستان کا یہ حق ہے کہ وہ مقتل کی بجائے ایک ہنستا کھیلتا سماج بنے۔ اس کے بچے پڑوس میں جا کر کوڑے کے ڈھیروں سے رزق تلاش نہ کریں بلکہ اپنے ملک میں پھولوں اور تتلیوں سے کھیلیں۔ ان کی ننھی پیٹھ پر بیلچے اور بوریوں کا نہیں پریوں کی کہانیوں کی کتابوں کا بوجھ ہو۔

یہ انقلاب کا سفر نہیں ہے، یہ ارتقاء کا سفر ہے۔ یہ سفر مثالیت پسندی سے طے نہیں ہو گا، یہ بصیرت اور خیر خواہی سے طے ہو گا۔ کوئی کہے کہ راتوں رات افغانستان میں مغربی جمہوریت آ جائے تو یہ بھی ممکن نہیں اور کوئی سمجھتا ہے کہ ماضی کی طرح کوئی ایک گروہ اٹھے اور سب پر راج کرنا شروع کر دے تو یہ بھی آسان نہیں۔ اس صورت میں دوسرے گروہ مزاحمت کریں گے اور انہیں اسلحہ اور وسائل مہیا کرنے کے لیے دنیا میں کئی ممالک موجود ہیں۔

اب کوئی اٹھے جو داخل پر توجہ دے، جو سب کے لیے رحمت بن جائے، جو ہر قومیت ا ور ہر اکائی کا احترام کرے، جو سب کو قومی وحدت میں سمو لے اور جو اپنے ملک کی تعمیر کرے۔ جو یہ کر پائے گا وہی افغانستان کا ہیرو ہو گا۔ افغانستان کا ہی نہیں وہ اس سارے خطے کا ہیرو ہو گا۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat